انصاف کا قتل عام

                                                                                                                                                                                                انصاف کا قتل عام
پاکستان میں آجکل جعل سازی ختم کرنے کے عزم کا زور وشور سے اعادہ تمام چینلز کررہے ہیں اس تمام مہم میں وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب بھی حیران کن حد تک سرگرم  ہیں اور انہوں نے ایک امریکن اخبار کی سٹوری پر تحقیقات کا راتوں رات حکم دیا۔حالانکہ وہ راتوں کو کام کم ہی کرتے ہیں۔دھواں دار پریس کانفرنس میں فرمایا کہ ان کی وزارت داخلہ کے دور میں کوئی جعل سازی برداشت نہیں کی جائے گی اور غیر قانونی کام کرنے کرنے والے اداروں اور شخصیات کو نشان عبرت بنادیا جائے گا ۔وزیرداخلہ صاحب کے اس اعلان کو سن کر بہت خوشی ہوئی کہ چوہدری صاحب کو میاں نوازشریف سے روٹھنے ،منانے کے علاوہ بھی کچھ کرنا یاد ہے ۔ایف آئی نے ایگزیکٹ کے خلاف اخباری رپورٹ کے بعد تحقیقات کا ااغاز کیا تو پورا میڈیا اس ایشو کو اس طرح کوریج دے رہا تھا جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ایگزیکٹ ہے ۔اگر یہ مسئلہ حل ہوگیا تو ہر شخص کو تعلیم مل جائے گی ،صحت کی سہولیات ہر شخص کو اس کے گلی محلے میں ملیں گی ،انصاف کا بول بولا ہوجائے گا ،تمام مسائل دہشت گردی،انتہاپسنبدی ،بے روزگاری،کرپشن ،لوٹ مار ،جعلی ادویات،قبضہ گروپوں سے نجات،جاگیرداری نظام سے نجات،لوڈشیڈنگ جیسے تمام مسائل ایگزیکٹ کے مسئلہ کے ساتھ جڑے ہیں ۔ایف آئی اے کوانکوائری کرنی چاہئیے مگر چند سوالات ہیں جو ہر محب وطن شہری کے ذہن میں ہیں۔
کیا وزیر داخلہ صاحب ان سوالوں کے جواب دینا پسند کریں گے ؟
کیا ملک ریاض ،میاں منشا،آصف زرداری،نوازشریف،سلطان لاکھانی،میاں عامر،میر شکیل الرحمن ،اسحاق ڈار اور دیگر کھربوں ،اربوں کے بزنس ایمپائیر والوں کے اثاثے کہاں سے آئے پوچھا جائے گا؟کیا یہ تمام ادارے ٹیکس ادا کرتے ہیں ؟ کیا تمام سیاسی ومذہبی ،سماجی تنظیموں کے رہنماٗوں کے بزنس اور اثاثہ جات بھی چیک کئیے جائیں گے ؟  :
کیا ایسی ہی کارروائی ایسے تمام اداروں کے ساتھ کی جائے گی جن کے بارے میں الزامات پر مبنی خبریں شایع یا نشر ہوں گی۔
اِس کا اطلاق صرف اداروں پر ہو گا یا افراد پر بھی اور یہ اطلاق سب پر یکساں ہو گا یا منتخب اداروں اور لوگوں پر؟
کسی الزام کا مقدمہ درج ہوئے بغیر کسی دفتر میںٗ قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کا چھاپہ مارنا اور وہاں سے ادارے کے ملازموں کومجرموں کی طرح لے جانا کس قانون کے تحت درست ہے؟
کیا ذرایع ابلاغ کے وہ ادارے جو آج اس کارروائی کی خبریں کسی بھی احتیاط کے بغیر نشر کر رہے ہیں خود اپنے ساتھ ایسی ہی کارروائی کو قبول کریں گے؟
اس سے پہلے غیر ملکی اخبارات میں چھپنے والی کتنی خبروں کا نوٹس ایف آئی نے لیا ہے ؟
اگر پاکستان کے اخبار میں امریکی اداراے کے خلاف جعل سازی یا فراڈ کی خبر چھپے تو امریکہ کے ادارے بھی ایسی ہی کاروائی کریں گے ؟
نیو یارک ٹائمز نے جومضمون شایع کیا ہے کیا ایسے کسی مضمون کو بنیاد بنا کر کسی ادارے کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے یا کی جا سکتی ہے؟ کیا پاکستان کا آئین اور قوانین اِس کی اجازت دیتے ہیں؟
کیا یہ نہیں لگتا کہ وزیرداخلہ نے خود کوایک جج کے درجے پر فائز کرتے ہوئےمضمون کا سوُوُموٹو نوٹس لے کر کارروائی کا حکم جاری کر دیا؟
جیسے اس مضمون اور اس کی بنیاد پر بنائی گئی خبروں پر سینیٹ تک حرکت میں آئے ہیں، کیا یہ ایک بے مثال واقعہ نہیں ہے؟
مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ ایک ادارے کے بارے میں معلومات باہر سے آئی ہیں۔ معلومات کہیں سے بھی آئیں، اُن کا نوٹس لیا جانا چاہیے لیکن کارروائی سے پہلے پوری چھان بین کی جانی چاہیے۔
کیا یہ بات بھی کہنی ہو گی کہ کوئی ایسی مثال پیدا نہیں کرنی چاہیےجو کل آپ کے آگے آئے تو آپ کو پچھتانا نہ پڑے۔
اب بہت سے کیسز جن کا ماضی میں بہت چرچہ رہاہے ان کا کیا بنا کوئی تجزیہ کار ،اینکر ،صحافی بتانے کی زحمت کرے گا ۔ان میں پنجاب بنک کا سکینڈل ،ایل این ایل جی ،سٹیل مل کیس،اوگرا کیس ،توقیر صادق کا کییس ،سوئس بنک کے کیسز ،سرے محل کے کیسز،اسحاق ڈار کے منی لانڈرنگ کے کیس،میاں نوازشریف کے بیرون ملک اثاثہ جات کا کیس ،آصف زرداری پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات ۔۔یہ وہ کیسز ہیں جن پر کوئی تحقیقات نہیں ہورہیں ۔اس کے علاوہ سانحہ ماڈل ٹائوں میں پولیس کے ہاتھوں  چودہ افراد کا قتل عام ،ڈسکہ میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے وکلا ء کو انصاف کون دلائے گا ۔کیا پاکستان کے وزیر داخلہ ان لوگوں کو بھی انصاف دلانے کے لئے اپنے ماتحت کام کرنے والے اداروں کو ایسے ہی ایکٹیو کریں گے۔

ان تمام حقائق و واقعات کو پرکھنے کے بعد اندازاہ ہوتا ہے کہ ایگزیکٹ اور بول کے معاملہ میں اصل معاملہ کچھ اور ہے میری نظر میں یہ ساری جنگ میڈیا مالکان کی ہے اور کارپوریٹ بزنس وار ہے اس جنگ میں صحافی اور ادارے استعمال ہورہے ہیں ۔پاکستان کے ادارے کسی مخصوص میڈیا گروپ یا حکومت کے نہیں بلکہ اٹھارہ کروڑ عوام کی ملکیت ہیں ۔ عوام توقع کرتے ہیں ہیں کہ تمام اداروں اور شخصیات کے لئے قانون ایک ہونا چاہئیے کسی ایک شخص یا ادارے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہئیے اگر اس پر الزام ہے تو ان کو اپنی صفائی دینے کا پورا موقع ملنا چاہئیے ۔انصاف کے تقاضے بھی یہی ہیں اگر یہ تاثر دیا جائے گا کہ تحقیقات سے پہلے کسی کو مجرم ثابت کردیا جائے تو یہ انصاف کا قتل عام ہوگا ۔

Comments

  1. i sent this article to different news papers but no one publish it

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء