پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"



پاکستان میں اشرافیہ کا راج کارل مارکس  کی کتاب Das Kapitalمیں  بیان کردہ طبقاتی کشمکش کا عملی اظہار ہے، جہاں حکمران طبقہ (اشرافیہ) اپنے معاشی اور سیاسی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے عام آدمی اور مڈل کلاس کی قیادت کو ابھرنے سے ہر صورت روکتا ہے۔ 20ویں صدی  کے جرمن سیاسی مفکر اور ماہر اقتصادیات میکس ویبر کی کتاب Economy and Society کے طبقاتی تجزیے کی رو سے،مراعات یافتہ طبقہ (اشرافیہ) اپنی غیر معمولی سماجی حیثیت (Status) اور طاقت کو زائل ہونے سے بچانے کے لیے ایک ایسا مفاداتی اتحاد تشکیل دیتا ہے، جس کی تصدیق روبرٹ مائیکلز نظریہ: اولیگارکی کا آہنی قانون اور پولیبیئس قدیم دور، کتاب The Histories کے باہمی تعاون کے نظریات سے ہوتی ہے، جس کے تحت یہ چند خاندان اور گروہ مل کر نہ صرف نظام پر اپنا تسلط قائم رکھتے ہیں، بلکہ کسی بھی عام آدمی کے راستے کی رکاوٹ بھی بنتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے خول میں بند رہ کر، مڈل کلاس کو صرف تالیاں بجانے اور واہ واہ کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہے، تاکہ حقیقی طاقت کے ڈھانچے میں ان کی شمولیت کا ہر دروازہ بند رہے۔اشرافیہ (Elite) سے مراد وہ اقلیتی گروہ ہے جو معاشرے کے مالیاتی، سیاسی اور انتظامی ڈھانچے پر قابض ہو کر غیر معمولی مراعات اور بالادستی حاصل کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ اشرافیہ صرف جاگیرداروں پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ اس میں معاشی اشرافیہ (Economic Elite)، سیاسی اشرافیہ (Political Elite) اور نوکر شاہی (Bureaucratic Elite) شامل ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور عوام، بالخصوص مڈل کلاس، کو ترقی کے راستے پر آنے سے روکتے ہیں۔عالمی سماجی مفکر میکس ویبر (Max Weber) نے طبقات کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اشرافیہ وہ لوگ ہیں جن کا سماجی، سیاسی اور معاشی رتبہ عام لوگوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ طبقہ حکومتی وسائل، پالیسی سازی اور فیصلہ سازی پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔اشرافیہ قومی وسائل کو ہڑپ کرنے، اپنے لیے مخصوص معاہدے کروانے اور ٹیکس چھوٹ حاصل کرنے کے لیے سرکاری مشینری کو استعمال کرتی ہے۔ اس سے ملکی معیشت میں توازن بگڑتا ہے اور مڈل کلاس کے لیے روزگار، تعلیم اور صحت کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس کی قیادت یا جماعتوں کو کبھی پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا اور انہیں منتشر رکھا گیا۔ اگر کسی سیاسی جماعت میں عام ورکر کو کوئی عہدہ ملے یا اسے اچھی پوزیشن پر لانے کا موقع ملے تو اس جماعت کی اشرافیہ اور باقی طاقتور اشرافیہ اس کا راستہ روکنے کے لئے متحرک ہوجاتی ہے اشرافیہ یہ یقینی بناتی ہے کہ مقامی حکومتی نظام (Local Governments) فعال نہ ہوں، کیونکہ یہ نچلی سطح سے مڈل کلاس قیادت کو ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

. کارل مارکس اور طبقاتی کشمکش (Karl Marx and Class Struggle)

مارکس کے مطابق، معاشرہ ہمیشہ دو بنیادی طبقات میں بٹا ہوتا ہے: حکمران طبقہ (مالک) اور محکوم طبقہ (مزدور)۔ پاکستان کے تناظر میں اشرافیہ کو حکمران طبقہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

مفادات کا ٹکراؤ: مارکس کا نظریہ یہ واضح کرتا ہے کہ حکمران طبقے کا بنیادی مفاد اپنے اختیار اور وسائل پر قبضے کو برقرار رکھنا ہے۔ مڈل کلاس کی بڑھتی ہوئی طاقت، تعلیم اور شعور اشرافیہ کے لیے براہ راست خطرہ بنتے ہیں، کیونکہ مڈل کلاس ہی سماجی انصاف اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اشرافیہ کا اسے کچلنا یا اس کا راستہ روکنا دراصل اپنے اقتدار کو غیر متزلزل  اور مستقل رکھنے کی کوشش ہے۔

روبرٹ مائیکلز اور اولیگارکی کا آہنی قانون (Robert Michels and the Iron Law of Oligarchy)

سماجی مفکر روبرٹ مائیکلز نے "اولیگارکی کے آہنی قانون" کا نظریہ پیش کیا تھا۔ اولیگارکی سے مراد چند افراد کا راج ہے۔

اس نظریے کے تحت، چاہے کوئی تنظیم یا ملک جتنا بھی جمہوری کیوں نہ ہو، آخر کار طاقت چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ (Oligarchy) چند خاندانوں اور اداروں کے گرد گھومتی ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نظام کو قابو میں رکھتے ہیں۔ یہ اولیگارکی کسی بھی عام آدمی یا مڈل کلاس سے ابھرنے والی قیادت کو اس لیے قبول نہیں کرتی کہ اس کی شمولیت ان کے اختیارات کے ارتکاز کو توڑ سکتی ہے۔

پولیبیئس اور اشرافیہ کا باہمی تعاون (Polybius and Elite Co-operation)

قدیم یونانی مؤرخ پولیبیئس نے اشرافیہ کی طاقت کے استحکام پر بات کی۔ جدید سماجی ماہرین نے پاکستان کے تناظر میں یہ رائے دی ہے کہ اشرافیہ کے مختلف گروپس (سیاسی، معاشی، انتظامی) اپنے بڑے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک مشترکہ گروہ (Common Elite Clique) کی صورت میں کام کرتے ہیں۔

یہ تینوں گروہ آپس میں جنگ کے باوجود بھی مڈل کلاس کی ترقی کے معاملے پر ایک ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسا سماجی اور سیاسی ماحول تخلیق کرتے ہیں جہاں مڈل کلاس کے لیے کوئی بھی مضبوط سیاسی یا سماجی پلیٹ فارم نہ بن سکے، اور وہ مایوسی کا شکار ہو کر یا تو اشرافیہ کے کسی ایک گروپ کی پراکسی وار (Proxy War) میں شامل ہو جائیں یا اس کے کلب میں شامل ہونے کی تگ و دو کریں۔

مڈل کلاس کا المیہ (The Middle Class Dilemma)

عالمی سطح پر مڈل کلاس کو سماجی استحکام، معاشی ترقی اور جمہوریت کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ ارسطو (Aristotle) نے بھی کہا تھا کہ "بہترین سیاسی برادری مڈل کلاس کے شہریوں پر مشتمل ہوتی ہے، اور وہ ریاستیں اچھی طرح سے چلائی جاتی ہیں جن میں مڈل کلاس بڑی ہوتی ہے۔"تاہم، پاکستان میں اشرافیہ نے مڈل کلاس کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کے لیے منصوبہ بندی سے ایسے  طریقے اپنائے ہیں، جیسے کہ تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانا ( طلبہ سیاست کو عملی طور پر ختم کرنا )۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مڈل کلاس یا تو خاموش اور غیر فعال ہو جاتی ہے یا پھر اس کا ایک حصہ اشرافیہ کے کلب میں شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔یا باقی نوجوان روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں برین ڈرین تو ہوتا ہے مگر ملک کی ترقی بھی محدود ہوجاتی ہے اگر قابل لوگ ملک سے باہر چلیں جائیں گے تو ملک پھر نالائق و نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے گا جس سے دیر پا ترقی نہیں ہو گی اور ملک میں سیاسی و سماجی عدم استحکام برقرار رہے گا ۔ ملک میں معاشی عدم استحکام اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک سیاسی عدم استحکام نہیں آئے گا ۔ پاکستانی مڈل کلاس کے نوجوان سول سروسز، فوج یا عدلیہ میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں یہ ایک اشرافیہ کے کلب میں داخلہ ہے جو انہیں عام آدمی کی بے بسی سے نجات دلائے گا۔ یہ رجحان مڈل کلاس کے اندر مزاحمت کی بجائے مفاہمت کو پروان چڑھاتا ہے، جو اشرافیہ کے تسلط کو مزید مستحکم کرتا ہے۔پاکستان میں اشرافیہ کا راج اور مڈل کلاس کا راستہ روکنا صرف ایک اتفاق نہیں ہے، بلکہ یہ طاقت، اقتدار اور وسائل پر مکمل قبضے کو برقرار رکھنے کی ایک نظریاتی اور عملی حکمت عملی ہے۔ ہر اس شخص کا راستہ روکا جائے گا جس سے طاقتور اشرافیہ کے مفادات کا ٹکراو ہو یا مستقبل میں امکان ہو ۔

ازقلم : عتیق چوہدری 

 

Comments

Popular posts from this blog

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء