پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"
. کارل مارکس اور طبقاتی کشمکش
(Karl Marx and Class Struggle)
مارکس کے مطابق، معاشرہ ہمیشہ دو
بنیادی طبقات میں بٹا ہوتا ہے: حکمران طبقہ (مالک) اور محکوم طبقہ (مزدور)۔
پاکستان کے تناظر میں اشرافیہ کو حکمران طبقہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
مفادات کا
ٹکراؤ: مارکس کا نظریہ یہ واضح کرتا ہے کہ
حکمران طبقے کا بنیادی مفاد اپنے اختیار اور وسائل پر قبضے کو برقرار رکھنا ہے۔
مڈل کلاس کی بڑھتی ہوئی طاقت، تعلیم اور شعور اشرافیہ کے لیے براہ راست خطرہ بنتے
ہیں، کیونکہ مڈل کلاس ہی سماجی انصاف اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا
مطالبہ کرتی ہے۔ اشرافیہ کا اسے کچلنا یا اس کا راستہ روکنا دراصل اپنے اقتدار کو
غیر متزلزل اور مستقل رکھنے کی کوشش ہے۔
روبرٹ مائیکلز اور اولیگارکی کا آہنی
قانون (Robert Michels
and the Iron Law of Oligarchy)
سماجی مفکر روبرٹ مائیکلز نے
"اولیگارکی کے آہنی قانون" کا نظریہ پیش کیا تھا۔ اولیگارکی سے مراد چند
افراد کا راج ہے۔
اس نظریے کے
تحت، چاہے کوئی تنظیم یا ملک جتنا بھی جمہوری کیوں نہ ہو، آخر کار طاقت چند افراد
کے ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ
(Oligarchy) چند خاندانوں اور اداروں کے گرد
گھومتی ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نظام کو قابو میں رکھتے ہیں۔ یہ
اولیگارکی کسی بھی عام آدمی یا مڈل کلاس سے ابھرنے والی قیادت کو اس لیے قبول نہیں
کرتی کہ اس کی شمولیت ان کے اختیارات کے ارتکاز کو توڑ سکتی ہے۔
پولیبیئس اور اشرافیہ کا باہمی تعاون (Polybius and Elite Co-operation)
قدیم یونانی مؤرخ پولیبیئس نے اشرافیہ
کی طاقت کے استحکام پر بات کی۔ جدید سماجی ماہرین نے پاکستان کے تناظر میں یہ رائے
دی ہے کہ اشرافیہ کے مختلف گروپس (سیاسی، معاشی، انتظامی) اپنے بڑے مفادات کے تحفظ
کے لیے ایک مشترکہ گروہ
(Common Elite Clique) کی
صورت میں کام کرتے ہیں۔
یہ تینوں گروہ آپس میں جنگ کے باوجود
بھی مڈل کلاس کی ترقی کے معاملے پر ایک ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسا سماجی اور سیاسی
ماحول تخلیق کرتے ہیں جہاں مڈل کلاس کے لیے کوئی بھی مضبوط سیاسی یا سماجی پلیٹ
فارم نہ بن سکے، اور وہ مایوسی کا شکار ہو کر یا تو اشرافیہ کے کسی ایک گروپ کی
پراکسی وار (Proxy War) میں شامل ہو جائیں یا اس کے کلب میں
شامل ہونے کی تگ و دو کریں۔
مڈل کلاس کا المیہ (The Middle Class Dilemma)
عالمی سطح پر مڈل کلاس کو سماجی
استحکام، معاشی ترقی اور جمہوریت کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ ارسطو (Aristotle) نے بھی کہا تھا کہ "بہترین سیاسی برادری مڈل کلاس کے
شہریوں پر مشتمل ہوتی ہے، اور وہ ریاستیں اچھی طرح سے چلائی جاتی ہیں جن میں مڈل
کلاس بڑی ہوتی ہے۔"تاہم، پاکستان میں اشرافیہ نے مڈل
کلاس کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کے لیے منصوبہ بندی سے ایسے طریقے اپنائے ہیں، جیسے کہ تعلیمی اداروں میں
سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانا ( طلبہ سیاست کو عملی طور پر ختم کرنا )۔ اس کا
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مڈل کلاس یا تو خاموش اور غیر فعال ہو جاتی ہے یا پھر اس کا
ایک حصہ اشرافیہ کے کلب میں شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔یا باقی نوجوان روزگار کی
تلاش میں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں برین ڈرین تو ہوتا ہے مگر ملک کی ترقی بھی
محدود ہوجاتی ہے اگر قابل لوگ ملک سے باہر چلیں جائیں گے تو ملک پھر نالائق و
نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے گا جس سے دیر پا ترقی نہیں ہو گی اور ملک میں
سیاسی و سماجی عدم استحکام برقرار رہے گا ۔ ملک میں معاشی عدم استحکام اس وقت تک
نہیں آسکتا جب تک سیاسی عدم استحکام نہیں آئے گا ۔ پاکستانی مڈل کلاس کے نوجوان
سول سروسز، فوج یا عدلیہ میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں
یہ ایک اشرافیہ کے کلب میں داخلہ ہے جو انہیں عام آدمی کی بے بسی سے نجات دلائے
گا۔ یہ رجحان مڈل کلاس کے اندر مزاحمت کی بجائے مفاہمت کو پروان چڑھاتا ہے، جو
اشرافیہ کے تسلط کو مزید مستحکم کرتا ہے۔پاکستان میں اشرافیہ کا راج اور مڈل کلاس
کا راستہ روکنا صرف ایک اتفاق نہیں ہے، بلکہ یہ طاقت، اقتدار اور وسائل پر مکمل
قبضے کو برقرار رکھنے کی ایک نظریاتی اور عملی حکمت عملی ہے۔ ہر اس شخص کا راستہ
روکا جائے گا جس سے طاقتور اشرافیہ کے مفادات کا ٹکراو ہو یا مستقبل میں امکان ہو
۔
ازقلم : عتیق چوہدری
.jpg)
Comments
Post a Comment