اے ارضِ پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم




د ہشتگردوں کے خلاف پاک فوج کے فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب کو 15 جون کو ایک سال مکمل ہوگیاہے، ایک سال کے عرصے میں پاک فوج نے قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے دہشتگردوں کے مذموم عزائم خاک میں ملادئیےہیںی
۔آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اس ایک سال کے دوران پاک فوج کو فاٹا،شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئیں ،ایک سال میں 2763دہشت گردوں کوجہنم واصل کیاگیاجبکہ دہشت گردوں کے 837ٹھکانے تباہ کردئیے گے۔آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ایک سال کے دوران 357جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔اس آپریشن میں پاک فوج نے بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں آج وقت ہے کہ ان شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کیا جائے جواِس ملک کی خاطر اپنے سر ہتھیلی پر لیے جنگلوں، میں آگ شبیں گزارتے ہیں اور پھر اپنی جانیں اس مٹی پر قربان کردیتے ہیں اور اس کے لیے دعا کرتے ہیں کہ میں رہوں نہ رہوں اس کو بار ور کردے اور اب کی بار تو اِن شہیدوں میں  آپریشن ضرب عضب میں شہدا کی قربانی اور خون بھی شامل ہو گیا ہے اس خون کی حرمت ہر پاکستانی پر لازم قرار پائی ہے۔ سیا چین کا محاذ لیا جائے یا وزیرستان اور سوات کا کبھی یہ مجاہد ملکی سرحدوں کی اور کبھی ملکی مفاد کی حفاظت کرتے ہوئے جان جانِ آفرین کے سپرد کردیتے ہیں اور نہ کوئی شکوہ نہ شکایت نہ مقدمہ نہ سمن بس صرف قربانی۔ لیکن کیا قوم کو صرف اِن جوانوں کے خون کی ضرورت ہے اِن کی صلاحیتوں کی نہیں؟جہاں تک دشمن کے خلاف جنگ کی بات ہے تو اس سے اِن ماتھوں پر شکن بھی نہیں آتی اور یہ سوئے دار چل پڑتے ہیں  ۔شہادت اگرچہ مطلوب ومقصود ِمومن ہے لیکن جس طرح اس ملک کی فوج اور اس کے عوام کا قتلِ عام کیا گیا اور وہ دہشت گردوں کی نظر ہو ہو کر شہید ہوتے جارہے ہیں اسے اب بند ہو جانا چاہیے۔ دھماکوں ا ور دہشت گردی کی لہر اگر کچھ دنوں کیلئے رُک بھی جائے تو دوبارہ شروع ہوجاتی ہے اور شہیدوں کی فہرست لمبی ہوتی جاتی ہے ۔ ابھی عوام مطمئن ہوبھی نہیں پاتے کہ ان کا سکون اور زندگی چھین لی جاتی ہے آخر اس سب کچھ کے پیچھے کون سے ہاتھ ملوث ہیں ،کیا القاعدہ اور طالبان اتنے طاقتورہیں کہ ایک نہیں بلکہ دنیا کے پینتیس ممالک بشمول امریکہ اُن کی کمر نہ توڑ سکے ہیں اور وہ جدید ترین اسلحے کے استعمال کے بعد بھی ان کے سامنے بے بس ہیں ۔

یہاں چند سال میں بے شمار تنظیموں کا بن جانا ان کے عہداروں اور اہلکاروں کی تنخواہوں اور ان کے اخراجات آخر کہاں

سے پورے ہو رہے ہیں کیا ان پتھریلے پہاڑوں میں رہنے والے ان لوگوں کے ایسے ذرائع آمدن ہیں جو ان کا پیٹ بھرنے کے علاوہ انہیں تنخواہ دار ملازم رکھنے کی اجازت دے سکیں۔ ان کو کمپیوٹر ماہرین کہاں سے مہیا ہو جاتے ہیں؟ بلوچستان میں، سوات میں، وزیرستان حتٰی کہ بڑے چھوٹے تمام شہروں میں جس طرح ان دہشت گردوں نے امن و امان تباہ کر کے رکھ دیا ہے کوئی جان محفوظ ہے نہ مال۔ وہ جان جس کا کوئی نعم البدل نہیں اور وہ مال وہ سڑکیں وہ عمارتیں جس کو بناتے بناتے پاکستانی عوام اپنا خون پسینہ بہا دیتے ہیں سب ان کی نظر ہو رہا ہے، باپ بچوں کا رزق روزی گھر پہنچانے کی بجائے اپنے ارمانوں سمیت ان عمارتوں کے نیچے دفن ہو جاتے ہیں ۔ ہماری پولیس اپنی ڈیوٹی پر کھڑے کھڑے جان دے رہی ہے اور ہماری خاک سے جڑی خاکی فوج اس زمین پر اپنی جان قربان کر دیتی ہے اور یہی ان کا فخر ہے اور مقصد بھی اوریوں یہ خود قوم کا فخر بن جاتے ہیں لیکن آخر کب تک ہم مسائل سے دوچار رہیں گے ہم دہشت گردوں کے خلاف لڑ تورہے ہیں لیکن جو انہیں مدد فراہم کر رہے ہیں بلکہ دراصل ان کی ڈور جس کے ہاتھ میں ہے اس اصل دشمن سے نمٹنا ضروری ہے۔ اگر ہم صرف شاخ تراشی کرتے رہیں گے تو درخت تو نہ سوکھے گا بلکہ اور ہرا بھرا ہو گا۔ لہٰذا ان دہشت گردوں سے جنگ تو لڑنی ہے جب تک کہ یہ ختم نہ ہو جائیں مگر اس کی وجوہات کو بھی ختم کرنا ہوگا  ۔

مجھے اپنی قوم کے ہر شہید پر فخر ہے 

۔

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء