اتخابی اصلاحات ، توجہ طلب پہلو
عتیق چودھری
جمہوریت کی بقا ءاور اسکا تسلسل منصفانہ اور صاف شفاف انتخابات کے انعقاد میں ہی مضمر ہے ،جمہوری عمل جتنامضبوط اور شفاف ہوگا ملک اتنا ہی خوشحال ہوگا۔انتخابی اصلاحات کا مقصد ایسا صاف شفاف ،غیرجانبدار الیکشن کا نظام تشکیل دینا ہے جس میں عام آدمی سوچ و پسند کے مطابق صحیح معنوں میں عوامی ،جمہوری حکومت منتخب ہو ۔مگر ہمارے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ شفاف انتخابات کا ہمیشہ فقدان رہا ہے ۔ماضی میں ملک میں انتخابی قوانین موجود ہونے کے باوجود نہ تو ان قوانین کودرخور اتنا سمجھا گیااور نہ ہی ان کی پابندی کا لحاظ رکھا جاتا رہا ۔ اندریں حالات مسائل کا حل یہ ہے کہ نظام میں اصلاحات کا ایسا میکنیزم بنایا جائے جس سے شفافیت ،غیرجانبداریت کی جھلک نظر آئے ۔ قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات کا بل 2017 پاس ہونا خوش آئیند قدم ہے مگر بدقسمتی سے 342 ارکان میں سے 50 سے بھی کم ارکان اس وقت اسمبلی میں موجودتھے ۔ مقام افسوس یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے 53 ارکان میں صرف 2 وزراءاسمبلی میں موجود تھے ۔ اس سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ منتخب نمائیندے اصلاحات اور پارلیمنٹ کے تقدس میں کتنے سنجیدہ ہے ۔ 2013 کے الیکشن کے بعد پاکستان میں بھی انتخابی نظام میں اصلاحات کی آواز بلند ہوئی ،جو کہ جمہوریت کا خاصہ ہے ۔ جمہوریت کا حسن جہاں رواداری،برداشت اور دوسرے کے نکتہ نظر کوسننا ہے وہیں اس نظام کے گدلا پن کو دور کرنے کے لئے Inbuilt نظام میں اصلاح کا پہلو اسباب خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں ۔ نئے انتخابی قوانین میں انتخابات سے متعلقہ آٹھ پرانے قوانین جن میں الیکٹورل رول ایک مجریہ 1974 ،انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق ڈی لمیٹیشن آف کونسٹی ٹونسی ایکٹ 1974 ،سینیٹ الیکشن ایکٹ 1975 ،ریپریزنٹیشن آف پیپلز ایکٹ ،الیکشن کمیشن آرڈر سنہ 2002 ، عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق 2002 قانون اور پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2002 ءکو یکجا کرکے یہ قانون بنایا گیاہے ۔ ان ترامیم میں خوش آئیند بات الیکشن کمیشن کو مزید مالی وانتظامی خودمختاری دینا ،الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ کے اختیارات ،کمیشن غیر قانونی عمل کے خلاف ازخود نوٹس لے سکے گا ، سیاسی جماعتوں کو 5 فیصد نشستیں خواتین کے لئے مختص کرنا ، انتخابی تنازعات نمٹانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ، مذہب و فرقے کو استعمال کرنے والوں کو تین سال قید کی سزا ،ایک سے زائد ووٹ ڈالنے والو ں کے لئے 6 ماہ قید ا کی سزا ، اگر کسی حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کا دس فیصد سے کم خواتین کے ووٹ پول ہوئے وہاں پر تحقیقات کی جائیں گی جہاں خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی تو عائد نہیں کی گئی اگر ایسا ثابت ہوا تو حلقے کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا جیسے اقدامات قابل ستائش ہیں ۔ مگر بہت سی ترامیم ایسی کی گئی ہیں جن پر سوال اٹھ رہے ہیں مثلا نئے قانون کے مطابق نامزدگی فارم کوسادہ بنایا گیا ہے اس سے امیدوار کو اپنے اثاثے اور ذرائع انکم اور ٹیکس کی تفصیل چھپانے میں مدد ملے گی ، یاد رہے کہ کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے کے جرم میں نواز شریف کو آرٹیکل 62 ون ایف ،عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ ایف 99 ، عوامی نمائیندگی ایکٹ کی دفعہ 12 اور عوامی نمائیندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 78 کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا، ان تمام شقوں کو کاغذات نامزدگی سے خارج کردیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ عوامی نمائیندہ ایکٹ 76 کی دفعہ 42 اے اور سینٹ ایکٹ 75 کی دفعہ 25 اے جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ ہر سال اپنے اثاثہ جات کی تفصیل الیکشن کمیشن میں جمع کروانے کے پابند تھے اسے بھی حذف کردیا گیا ہے اب پارلیمنٹرینز کے اثاثہ جات اور نامزدگی فارم کی تفصیلات ویب سائیٹ پر شائع بھی نہیں کئیے جاسکتے یہ اقدامات عوام کو اپنے ارکان پارلیمنٹ کی باز پرس کے اختیار سے محروم کرتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کو بہت سے معاملات میں مکمل خودمختار نہیں بنایا گیا جس طرح ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں الیکشن کمیشن مکمل خود مختار ،آزاداورغیر جانبدار ہے ۔ ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنے پر پابندی بھی نہیں لگائی گئی ۔ اقلیتوں کاکوٹہ نہ بڑھانا بھی تشویشناک عمل ہے ۔ سینیٹ الیکشن کے عمل پر بہت زیادہ اعتراضات سامنے آتے ہیں ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خریدوفروخت کو روکنے کے لئے کوئی ترامیم نہیں کی گئیں ۔ سیاسی جماعتوں پاکستان میں شخصی وخاندانی طرز سیاست پر کا م کرتی ہیں سیاسی جماعتوں میں گراس روٹ لیول تک جمہوری نظام واضع کرنے کے اقدامات نہیں کئیے گے ۔ سب سے اہم مسئلہ الیکشن میں اخراجات کاہوتا ہے اب قومی اسمبلی کے امیدوار کے اخراجات کی حد 40 لاکھ ، صوبائی اسمبلی 20 لاکھ ،سینیٹ کے لئے 15 لاکھ مقرر کی گئی ہے اور سیاسی جماعت 5 کروڑ روپے اخراجات کرسکتی ہے مگر عملی طور پر قومی اسمبلی کے حلقے پر اخراجات بڑے شہروں میں 10 سے 20 کروڑ ہوتے ہیں جن کو کنٹرول کرنے کی بجائے یہ ترمیم کردی گئی ہے کہ امیدوار کا سپورٹر اگر اخرجات کرے گاتو اس سے امیدوار سے نہیںپوچھا جائے گا اب امیدوار کروڑوں روپے کے پوسٹرز،فلیکس،بینرزاور بورڈز سپورٹرز کے نام سے لگوائے گا ۔ الیکشن ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے کاغذوں کی حد تک تو قوانین بہت دلکش اور آئیڈیل ہوتے ہیں مگر عملدرآمد میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے یہ قوانین صرف فائلوں کی زینت بنے رہتے ہیں ۔ عملی طور پر سیاست اتنی مہنگی کردی گئی ہے کہ عام آدمی دسترس سے باہر ہوگئی ہے ۔بڑے شہروں میں سرمایہ دار ،تاجر اور دیہی علاقوں میں جاگیردار ،وڈیرے سیاسی حلقوں پر قابض ہیں ۔ ان حالات میں عام آدمی بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے ۔ پاکستان میں 98 فیصد آبادی غریب ،متوسط طبقے پر مشتمل ہیں جن میں مزدور ،کسان ،چھوٹے دکاندار ،چند ایکڑ کے مالک کسان ،طالبعلم ،وکلاء،اساتذہ ،مظلوم ومجبور طبقات ہیں ۔ ہمارا معاشرہ پہلے قبائلی ،فیوڈل اور برادری کلچر کی زنجیروں میںبُری طرح جکڑا ہوا ہے ۔ برطانوی طرز کے پارلیمانی نظام کوچلانے کے لئے جاگیردرانہ کلچر کا خاتمہ بہت ضروری ہے ۔اس وقت پاکستان کی سیاست electables کے گرد گھومتی ہے جو اپنے حلقے میں خاندانی اثرورسوخ ،برادری اور پیسے کے بل بوتے پر جیتتے ہیں یہ وننگ ہارسز سیاسی جماعتوں کی بھی مجبوری بن جاتے ہیں ۔ انتخابی نظام میں بے انتہا اسقام پائے جاتے ہیںقوم امید کرتی تھی کہ انتخابی اصلاحات بل میں ان اسقام کو دور کرکے نظام کو عوامی امنگوں کے مطابق بنایا جائے گا مگر عام آدمی کو مایوسی ہوئی ہے ۔ عام شہری کو تقویت صرف اس وقت مل سکتی ہے جب وہ معنی خیز انتخابی اصلاحات کے ذریعے سیاسی عمل کا حصہ بن سکے ۔ جمہوریت پر شکوہ عمارتوں اور اس میں بیٹھنے والے چند سیاسی خاندانوں کا نہیں بلکہ عوام الناس کو حقوق دینے اور جمہور کو جمہوری عمل میں شریک کرنے کا نا م جمہوریت ہے ۔ وطن عزیز میں جمہوریت کی جو شکل نظر آتی ہے اس میں عوام کا عمل دخل صرف پولنگ ڈے پر ووٹ بھگتانا رہ گیا ہے ، الیکشن جیتنے میں کروڑوں کا سرمایہ ،غنڈہ گردی ،برادری ازم اور دیگر منفی ذرائع شامل ہیں اور اس میں پارٹی منشور نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی اس لئے ملک میں حقیقی تبدیلی کے لئے انتخابی نظام میں بہت زیادہ اصلاحات اور ان پر عملدرآمد کے لئے لانگ ٹرم میکنزم کی ضرورت ہے ۔ قدرتی وسائل اور ذہین ترین افرادی قوت کے باوجود ہمہ جہت بحران پاکستان کو جکڑے ہوئے ہیں ان چیلنجز سے نکلنے کا واحد راستہ نظام میں شفافیت اور احتساب کے لئے اصلاحات ہیںجن اصلاحات کے بعد عام آدمی بھی صلاحیت ،قابلیت کے بل بوتے پر سیاسی عمل کا حصہ بن سکے ۔
جمہوریت کی بقا ءاور اسکا تسلسل منصفانہ اور صاف شفاف انتخابات کے انعقاد میں ہی مضمر ہے ،جمہوری عمل جتنامضبوط اور شفاف ہوگا ملک اتنا ہی خوشحال ہوگا۔انتخابی اصلاحات کا مقصد ایسا صاف شفاف ،غیرجانبدار الیکشن کا نظام تشکیل دینا ہے جس میں عام آدمی سوچ و پسند کے مطابق صحیح معنوں میں عوامی ،جمہوری حکومت منتخب ہو ۔مگر ہمارے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ شفاف انتخابات کا ہمیشہ فقدان رہا ہے ۔ماضی میں ملک میں انتخابی قوانین موجود ہونے کے باوجود نہ تو ان قوانین کودرخور اتنا سمجھا گیااور نہ ہی ان کی پابندی کا لحاظ رکھا جاتا رہا ۔ اندریں حالات مسائل کا حل یہ ہے کہ نظام میں اصلاحات کا ایسا میکنیزم بنایا جائے جس سے شفافیت ،غیرجانبداریت کی جھلک نظر آئے ۔ قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات کا بل 2017 پاس ہونا خوش آئیند قدم ہے مگر بدقسمتی سے 342 ارکان میں سے 50 سے بھی کم ارکان اس وقت اسمبلی میں موجودتھے ۔ مقام افسوس یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے 53 ارکان میں صرف 2 وزراءاسمبلی میں موجود تھے ۔ اس سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ منتخب نمائیندے اصلاحات اور پارلیمنٹ کے تقدس میں کتنے سنجیدہ ہے ۔ 2013 کے الیکشن کے بعد پاکستان میں بھی انتخابی نظام میں اصلاحات کی آواز بلند ہوئی ،جو کہ جمہوریت کا خاصہ ہے ۔ جمہوریت کا حسن جہاں رواداری،برداشت اور دوسرے کے نکتہ نظر کوسننا ہے وہیں اس نظام کے گدلا پن کو دور کرنے کے لئے Inbuilt نظام میں اصلاح کا پہلو اسباب خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں ۔ نئے انتخابی قوانین میں انتخابات سے متعلقہ آٹھ پرانے قوانین جن میں الیکٹورل رول ایک مجریہ 1974 ،انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق ڈی لمیٹیشن آف کونسٹی ٹونسی ایکٹ 1974 ،سینیٹ الیکشن ایکٹ 1975 ،ریپریزنٹیشن آف پیپلز ایکٹ ،الیکشن کمیشن آرڈر سنہ 2002 ، عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق 2002 قانون اور پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2002 ءکو یکجا کرکے یہ قانون بنایا گیاہے ۔ ان ترامیم میں خوش آئیند بات الیکشن کمیشن کو مزید مالی وانتظامی خودمختاری دینا ،الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ کے اختیارات ،کمیشن غیر قانونی عمل کے خلاف ازخود نوٹس لے سکے گا ، سیاسی جماعتوں کو 5 فیصد نشستیں خواتین کے لئے مختص کرنا ، انتخابی تنازعات نمٹانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ، مذہب و فرقے کو استعمال کرنے والوں کو تین سال قید کی سزا ،ایک سے زائد ووٹ ڈالنے والو ں کے لئے 6 ماہ قید ا کی سزا ، اگر کسی حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کا دس فیصد سے کم خواتین کے ووٹ پول ہوئے وہاں پر تحقیقات کی جائیں گی جہاں خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی تو عائد نہیں کی گئی اگر ایسا ثابت ہوا تو حلقے کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا جیسے اقدامات قابل ستائش ہیں ۔ مگر بہت سی ترامیم ایسی کی گئی ہیں جن پر سوال اٹھ رہے ہیں مثلا نئے قانون کے مطابق نامزدگی فارم کوسادہ بنایا گیا ہے اس سے امیدوار کو اپنے اثاثے اور ذرائع انکم اور ٹیکس کی تفصیل چھپانے میں مدد ملے گی ، یاد رہے کہ کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے کے جرم میں نواز شریف کو آرٹیکل 62 ون ایف ،عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ ایف 99 ، عوامی نمائیندگی ایکٹ کی دفعہ 12 اور عوامی نمائیندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 78 کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا، ان تمام شقوں کو کاغذات نامزدگی سے خارج کردیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ عوامی نمائیندہ ایکٹ 76 کی دفعہ 42 اے اور سینٹ ایکٹ 75 کی دفعہ 25 اے جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ ہر سال اپنے اثاثہ جات کی تفصیل الیکشن کمیشن میں جمع کروانے کے پابند تھے اسے بھی حذف کردیا گیا ہے اب پارلیمنٹرینز کے اثاثہ جات اور نامزدگی فارم کی تفصیلات ویب سائیٹ پر شائع بھی نہیں کئیے جاسکتے یہ اقدامات عوام کو اپنے ارکان پارلیمنٹ کی باز پرس کے اختیار سے محروم کرتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کو بہت سے معاملات میں مکمل خودمختار نہیں بنایا گیا جس طرح ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں الیکشن کمیشن مکمل خود مختار ،آزاداورغیر جانبدار ہے ۔ ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنے پر پابندی بھی نہیں لگائی گئی ۔ اقلیتوں کاکوٹہ نہ بڑھانا بھی تشویشناک عمل ہے ۔ سینیٹ الیکشن کے عمل پر بہت زیادہ اعتراضات سامنے آتے ہیں ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خریدوفروخت کو روکنے کے لئے کوئی ترامیم نہیں کی گئیں ۔ سیاسی جماعتوں پاکستان میں شخصی وخاندانی طرز سیاست پر کا م کرتی ہیں سیاسی جماعتوں میں گراس روٹ لیول تک جمہوری نظام واضع کرنے کے اقدامات نہیں کئیے گے ۔ سب سے اہم مسئلہ الیکشن میں اخراجات کاہوتا ہے اب قومی اسمبلی کے امیدوار کے اخراجات کی حد 40 لاکھ ، صوبائی اسمبلی 20 لاکھ ،سینیٹ کے لئے 15 لاکھ مقرر کی گئی ہے اور سیاسی جماعت 5 کروڑ روپے اخراجات کرسکتی ہے مگر عملی طور پر قومی اسمبلی کے حلقے پر اخراجات بڑے شہروں میں 10 سے 20 کروڑ ہوتے ہیں جن کو کنٹرول کرنے کی بجائے یہ ترمیم کردی گئی ہے کہ امیدوار کا سپورٹر اگر اخرجات کرے گاتو اس سے امیدوار سے نہیںپوچھا جائے گا اب امیدوار کروڑوں روپے کے پوسٹرز،فلیکس،بینرزاور بورڈز سپورٹرز کے نام سے لگوائے گا ۔ الیکشن ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے کاغذوں کی حد تک تو قوانین بہت دلکش اور آئیڈیل ہوتے ہیں مگر عملدرآمد میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے یہ قوانین صرف فائلوں کی زینت بنے رہتے ہیں ۔ عملی طور پر سیاست اتنی مہنگی کردی گئی ہے کہ عام آدمی دسترس سے باہر ہوگئی ہے ۔بڑے شہروں میں سرمایہ دار ،تاجر اور دیہی علاقوں میں جاگیردار ،وڈیرے سیاسی حلقوں پر قابض ہیں ۔ ان حالات میں عام آدمی بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے ۔ پاکستان میں 98 فیصد آبادی غریب ،متوسط طبقے پر مشتمل ہیں جن میں مزدور ،کسان ،چھوٹے دکاندار ،چند ایکڑ کے مالک کسان ،طالبعلم ،وکلاء،اساتذہ ،مظلوم ومجبور طبقات ہیں ۔ ہمارا معاشرہ پہلے قبائلی ،فیوڈل اور برادری کلچر کی زنجیروں میںبُری طرح جکڑا ہوا ہے ۔ برطانوی طرز کے پارلیمانی نظام کوچلانے کے لئے جاگیردرانہ کلچر کا خاتمہ بہت ضروری ہے ۔اس وقت پاکستان کی سیاست electables کے گرد گھومتی ہے جو اپنے حلقے میں خاندانی اثرورسوخ ،برادری اور پیسے کے بل بوتے پر جیتتے ہیں یہ وننگ ہارسز سیاسی جماعتوں کی بھی مجبوری بن جاتے ہیں ۔ انتخابی نظام میں بے انتہا اسقام پائے جاتے ہیںقوم امید کرتی تھی کہ انتخابی اصلاحات بل میں ان اسقام کو دور کرکے نظام کو عوامی امنگوں کے مطابق بنایا جائے گا مگر عام آدمی کو مایوسی ہوئی ہے ۔ عام شہری کو تقویت صرف اس وقت مل سکتی ہے جب وہ معنی خیز انتخابی اصلاحات کے ذریعے سیاسی عمل کا حصہ بن سکے ۔ جمہوریت پر شکوہ عمارتوں اور اس میں بیٹھنے والے چند سیاسی خاندانوں کا نہیں بلکہ عوام الناس کو حقوق دینے اور جمہور کو جمہوری عمل میں شریک کرنے کا نا م جمہوریت ہے ۔ وطن عزیز میں جمہوریت کی جو شکل نظر آتی ہے اس میں عوام کا عمل دخل صرف پولنگ ڈے پر ووٹ بھگتانا رہ گیا ہے ، الیکشن جیتنے میں کروڑوں کا سرمایہ ،غنڈہ گردی ،برادری ازم اور دیگر منفی ذرائع شامل ہیں اور اس میں پارٹی منشور نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی اس لئے ملک میں حقیقی تبدیلی کے لئے انتخابی نظام میں بہت زیادہ اصلاحات اور ان پر عملدرآمد کے لئے لانگ ٹرم میکنزم کی ضرورت ہے ۔ قدرتی وسائل اور ذہین ترین افرادی قوت کے باوجود ہمہ جہت بحران پاکستان کو جکڑے ہوئے ہیں ان چیلنجز سے نکلنے کا واحد راستہ نظام میں شفافیت اور احتساب کے لئے اصلاحات ہیںجن اصلاحات کے بعد عام آدمی بھی صلاحیت ،قابلیت کے بل بوتے پر سیاسی عمل کا حصہ بن سکے ۔
Comments
Post a Comment