فیض فیسٹیول
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں ۔ جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ان اشعار کے خالق ۔انقلابی شاعر و دانشور فیض احمد فیض کی
کی یاد میں منعقد کیا جانے والے عالمی فیض میلہ لاہور میں جاری ہے۔فیض احمد فیض ایک ترقی پسند انقلابی شاعر تھے 13 فروری 1911 ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ فیض احمد فیض کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی تاریخ ادھوری ہے۔دنیائے ادب کے ایک جگمگاتے ستارے،شاعر انقلاب آٹھ کتابوں کے مصنف،درجنوں مشہور نغمات کے خالق،ترقی پسند شاعرفیض کا مختصر تعارف ہے
فیض نے صحافت میں قدم رکھا اور پاکستان ٹائم،امروز،لیل ونہار میں کام کیا۔راولپنڈی سازش کیس میں ملوث ہونے کے شبہ میں آپ کو 9 مارچ 1951 ء کو گرفتار کر لیا گیا۔چار سال آپ نے جیل میں گزارے۔آپ کو 2 اپریل 1955 ء کو رہا کر دیا گیا۔ زندان نے فیض کو مشہور شاعر بنایا۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
فیض نے تو آج کی دنیاکے جملہ سیاسی، سماجی، اقتصادی، معاملات کو سامنے رکھ کر شاعری کی ہے۔ ان کی کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔نقش فریادی، سر وادی سینا، دست صبا، شام شہر یاراں، مرے دل مرے مسافر،نسخہ ہائے وفا(کلیات)،زنداں نامہ،دست تہ سنگ۔ زنداں نامہ کی بہت سی غزلیں اسی دور کی یاد گار ہیں۔فیض کی شاعری کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے،سب سے زیادہ روس میں آپ کی شاعری کو سراہا گیا
فیض احمد فیض براعظم ایشیاء کے وہ واحد شاعر ہیں جنہیں روس کی جانب سے لینن امن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اپنے انقلابی نظریات کی وجہ سے فیض احمد فیض کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کر نا پڑی ، انیس سو اکیاون میں آپ کو مشہور زمانہ راولپنڈی سازیش کیس میں معاونت کے الزمام میں گرفتار کیا گیا۔فیض کی قید کا زمانہ ان کی شاعری میں ایک نیا نکھار لے کر آیا۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں ۔۔۔۔۔۔۔چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے فیض کے ایسے اشعار زمانہ قید کی ہی یاد ہیں،، جنہوں نے فیض کو دنیائے ادب کا تابندہ ستارہ بنا دیا۔
فیض کی مجموعی شاعری سیاست کا رنگ لیے ہوئے ہے ۔کہیں کہیں عشق ومحبت جھلکتا ہے ۔ان کی شاعری میں انسانیت سے محبت ،دوسروں کا درد ،زندگی کی بنیادی ضروریات ،غربت ،محرومی ،ان کو بے چین رکھتی تھی ان کے یہ اشعار دیکھیں کس کرب سے کہے گئے ہوں گے ۔
عاجزی سیکھی ،غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس وحرماں کے ،دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا ،سیکھا
سرد آہوں کے ،رخ زرد کے ،معنی سیکھے
کی یاد میں منعقد کیا جانے والے عالمی فیض میلہ لاہور میں جاری ہے۔فیض احمد فیض ایک ترقی پسند انقلابی شاعر تھے 13 فروری 1911 ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ فیض احمد فیض کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی تاریخ ادھوری ہے۔دنیائے ادب کے ایک جگمگاتے ستارے،شاعر انقلاب آٹھ کتابوں کے مصنف،درجنوں مشہور نغمات کے خالق،ترقی پسند شاعرفیض کا مختصر تعارف ہے
فیض نے صحافت میں قدم رکھا اور پاکستان ٹائم،امروز،لیل ونہار میں کام کیا۔راولپنڈی سازش کیس میں ملوث ہونے کے شبہ میں آپ کو 9 مارچ 1951 ء کو گرفتار کر لیا گیا۔چار سال آپ نے جیل میں گزارے۔آپ کو 2 اپریل 1955 ء کو رہا کر دیا گیا۔ زندان نے فیض کو مشہور شاعر بنایا۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
فیض نے تو آج کی دنیاکے جملہ سیاسی، سماجی، اقتصادی، معاملات کو سامنے رکھ کر شاعری کی ہے۔ ان کی کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔نقش فریادی، سر وادی سینا، دست صبا، شام شہر یاراں، مرے دل مرے مسافر،نسخہ ہائے وفا(کلیات)،زنداں نامہ،دست تہ سنگ۔ زنداں نامہ کی بہت سی غزلیں اسی دور کی یاد گار ہیں۔فیض کی شاعری کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے،سب سے زیادہ روس میں آپ کی شاعری کو سراہا گیا
فیض احمد فیض براعظم ایشیاء کے وہ واحد شاعر ہیں جنہیں روس کی جانب سے لینن امن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اپنے انقلابی نظریات کی وجہ سے فیض احمد فیض کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کر نا پڑی ، انیس سو اکیاون میں آپ کو مشہور زمانہ راولپنڈی سازیش کیس میں معاونت کے الزمام میں گرفتار کیا گیا۔فیض کی قید کا زمانہ ان کی شاعری میں ایک نیا نکھار لے کر آیا۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں ۔۔۔۔۔۔۔چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے فیض کے ایسے اشعار زمانہ قید کی ہی یاد ہیں،، جنہوں نے فیض کو دنیائے ادب کا تابندہ ستارہ بنا دیا۔
فیض کی مجموعی شاعری سیاست کا رنگ لیے ہوئے ہے ۔کہیں کہیں عشق ومحبت جھلکتا ہے ۔ان کی شاعری میں انسانیت سے محبت ،دوسروں کا درد ،زندگی کی بنیادی ضروریات ،غربت ،محرومی ،ان کو بے چین رکھتی تھی ان کے یہ اشعار دیکھیں کس کرب سے کہے گئے ہوں گے ۔
عاجزی سیکھی ،غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس وحرماں کے ،دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا ،سیکھا
سرد آہوں کے ،رخ زرد کے ،معنی سیکھے
Comments
Post a Comment