کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ؟
عتیق چوہدری ماہ اگست کے شروع ہوتے ہی ملک میں جشن آزادی منانے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ہم صرف یہی ایک دن بھرپور انداز میں مناکر اگلے ہی روز پھر اپنی سابقہ روٹین میں گُم ہو جائیں گے جو ہماری نَس نَس میں سما چکی ہے۔ہم یہ دن نہ تو قومی جذبے سے مناتے ہیں اور نہ ہی تجدیدِ عہد مقصد ہوتا ہے ۔سچ یہی ہے کہ اِس دن کی کشش محض اِس لیے ہے کہ ہم میلوں ٹھیلوں کے شوقین ہیں اور یہ دن ہمیں بھرپور تفریح مہیا کرتا ہے۔ چودہ اگست کو ارضِ پاک میں ہر طرف یہ ترانہ گونجتا سنائی دے گا یوں دی ہمیں آزادی کہ دُنیا ہوئی حیران اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے ، احسان اُدھر روحِ قائد سب سے زیادہ بیقرار بھی 14 اگست کو ہی ہوتی ہے ۔ مجھے تو روحِ قائد یہ سوال کرتی نظر آتی ہے کہ پاکستان جن مقاصد کے حصول کے لئے حاصل کیا گیاتھا وہ مقاصد کہاں ہیں ؟۔ یہ یومِ آزادی بھی گزر جائے گا اور پچھلے اڑسٹھ برسوں کی طرح اِس بار بھی یہ سوال چھوڑ جائے گا کہ کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ؟۔لیکن تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا ۔ہم تو لگ بھگ پچھلے سات عشروں میں ایک قوم میں بھی نہیں ڈھل سکے ۔ہم پنجابی ...