کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ؟

عتیق چوہدری 
ماہ اگست کے شروع ہوتے ہی ملک میں جشن آزادی منانے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ہم صرف یہی ایک دن بھرپور انداز میں مناکر اگلے ہی روز پھر اپنی سابقہ روٹین میں گُم ہو جائیں گے جو ہماری نَس نَس میں سما چکی ہے۔ہم یہ دن نہ تو قومی جذبے سے مناتے ہیں اور نہ ہی تجدیدِ عہد مقصد ہوتا ہے ۔سچ یہی ہے کہ اِس دن کی کشش محض اِس لیے ہے کہ ہم میلوں ٹھیلوں کے شوقین ہیں اور یہ دن ہمیں بھرپور تفریح مہیا کرتا ہے۔ چودہ اگست کو ارضِ پاک میں ہر طرف یہ ترانہ گونجتا سنائی دے گا
یوں دی ہمیں آزادی کہ دُنیا ہوئی حیران
اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے ، احسان
اُدھر روحِ قائد سب سے زیادہ بیقرار بھی 14 اگست کو ہی ہوتی ہے ۔ مجھے تو روحِ قائد یہ سوال کرتی نظر آتی ہے کہ پاکستان جن مقاصد کے حصول کے لئے حاصل کیا گیاتھا وہ مقاصد کہاں ہیں ؟۔
یہ یومِ آزادی بھی گزر جائے گا اور پچھلے اڑسٹھ برسوں کی طرح اِس بار بھی یہ سوال چھوڑ جائے گا کہ کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ؟۔لیکن تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا ۔ہم تو لگ بھگ پچھلے سات عشروں میں ایک قوم میں بھی نہیں ڈھل سکے ۔ہم پنجابی ، سندھی ، بلوچی اورپشتون تو ہیں ، پاکستانی نہیں۔ہم شیعہ ، سُنّی ، بریلوی ، دیوبندی اور اہلِ حدیث تو ہیں لیکن مسلمان نہیں۔دین فرقوں اور گروہوں کی نفی کرتا ہے اور ہم فرقوں کو سینوں پر سجائے پھرتے ہیں۔مسجد اﷲ کا گھر ہے لیکن ہماری مساجد بھی اپنی اپنی ہیں۔ہم ایسے نسلی، لسانی اور گروہی خول میں بند ہیں جنہیں توڑ کر باہر آنا ہمیں قبول نہیں۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اچھے مسلمان یا اچھے پاکستانی بن سکیں؟۔
خالی خولی بڑھکیں لگانے اورجذباتی نعرے بازی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ہم محنت نہیں کرتے ۔اسلام کے دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر اسلام کی حقیقی تعیلیمات پر عمل نہیں کرتے ۔اسلام امن محبت بھائی چارہ کا دین ہے ۔مگر پاکستان میں انتہاپسندی ،فرقہ واریت بہت زیادہ ہے،ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے ۔کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔
آج وطن عزیز مسائل کی آمجگاہ بن گیا ہے مگر ہم آج تک بنیادی ترجیحات کا تعین نہیں کر سکے ۔ہر سیاسی جماعت کے لیڈر الیکشن کے موقع پر عوام سے بلند وبانگ وعدے اور دعوے کرتے ہیں مگر الیکشن کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں ہر سیاسی لیڈر اپنے ذاتی اور جماعتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم آج ایک ہجوم ہیں قوم نہیں بن سکے۔بدقسمتی سے قائداعظم کے بعد قوم کو کوئی ایسا قائد بھی نہیں مل سکا جو اس ہجوم کو ایک قوم بناتا ۔ قیادت کا بحران پاکستان بننے کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا جوآج تک جاری ہے۔   
میں پاکستان دولخت ہوا مگر ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا ۔1971ے 
ہماری بدقسمتی کے ہم اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کرسکے نہ ہی کوئی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے شارٹ ٹرم یا لانگ ٹرم پلاننگ کر سکیں ہیں ۔ہر سال سیلاب آتا ہے جس سے اربوں روپے کا مالی نقصان ہوتا ہے ۔لاکھوں لوگ بے گھر ہوتے ہیں مگر ہمارے حکمران اور منصوبہ ساز خالی جمع تفریق کے علاوہ کچھ نہیں کرتے ۔جب سیلاب آجاتا ہے تو فوٹو سیشن کے لئے تمام سیاسی قائدین وہاں جاتے ہیں ۔مگر سیلاب سے بچائو کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئیے جاتے ۔اسی طرح دوسری قدرتی آفات سے بچائو کے لئے بھی ہم کوئی پلاننگ نہیں کرتے ۔کراچی میں اس سال ہیٹ سٹروک سے بھی بہت سے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر حکمرانوں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ مستقبل میں اس سے بچنے کے لئے اب بھی کوئی پلاننگ نہیں کی ۔ ہم توانائی بحران کا شکار ہیں جس سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے مگر ہم ڈیم نہیں بنارہے ۔اگر ڈیم بنا لیں تو سیلاب کی تباہی سے بھی بچا جاسکتا ہے اور توانائی کا بحران حل کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم غذائی قلت کا شکار ہیں مگر ہمارے منصوبہ ساز اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کررہے ۔من حیث القوم ہم اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں قومی مفاد کو مدنظر نہیں رکھتے ۔تاجر اور مالدار لوگ ٹیکس نہیں دیتے ۔اگر کوئی ٹیکس کا قانون بنتا ہے تو احتجاج شروع ہوجاتا ہے اور یہ طاقتور لوگ حکومت پر پریشر ڈال کر ٹیکس معاف کروا لیتے ہیں ۔جبکہ غریب آدمی بلواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ۔ ایک کلکرک سے لیکر صدر تک کرپشن کرتا ہے ۔کوئی شخص بھی اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔
ان حالات میں ہم جشن آزادی منا رہے ہیں ہر طرف سبز پرچموں کی بہار ہوگی ۔قومی ترانے گونجیں گے ۔سیاستدانوں کی جزباتی تقاریر ہونگی ۔

جشنِ آزادی منائیے اور جی بھر کے ہلّا گُلّا کیجئے ، وَن ویلنگ کرکے اپنی گردنیں تڑوائیے اور موٹر سائیکلوں کے سلنسر اُتار کر لوگوں کے کانوں کے پردے پھاڑیے ، ساری رات سڑکوں پہ ہُلڑ بازی کیجئے ۔کس میں ہمت ہے جو آپ کو روک سکے کہ آج تو یومِ آزادی ہے ۔ایسی آزادی جسے ہم نے ’’مادر پدر ٓزادی‘‘ میں ڈھال رکھا ہے لیکن خُدا را آنے والے کل کو اپنے احتساب کے لئے رکھ چھوڑیے اور خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہوئے یہ حساب ضرور کیجئے کہ ہم نے

دھرتی ماں کا قرض کہاں تک ادا کیا ہے؟۔کیا ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ؟آج ہمیں جشن آزادی کے موقع پر اپنا احتساب کرنا ہوگا ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھناہوگااگر ہم نے من حیث القوم اپنا احتساب نہ کیا تو ا
ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں                    


Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء