قائد کے آزاد وطن میں غلاموں کی چیخ و پکار
عتیق چوہدری
آزادی ایک لفظ نہیں ، ایک عظیم نعمت ہے۔زندگی کا اصل احساس ہے۔ جو
قومیں اس نعمت عظمیٰ کی قدر نہیں کرتیں ان کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ 14اگست
کادن ہمیں اس امر کا احساس دلاتا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے نصف صدی تک حصول پاکستان
کے لیے کن کن جانی و مالی قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا جن کی بدولت ہم آج آزاد
وطن میں پرسکون زندگی بسر کررہے ہیں۔
مشہور فرانسیسی مفکر روسو نے کہا تھا
‘‘Man
is born free, but everywhere he is in chains’’
‘‘انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن وہ ہر طرف زنجیروں
میں جکڑا ہوا ہے’’
یہ زنجیریں جبرواستداد کی نہیں ،یہ زنجیریں
ناروا پابندیوں کی ہیں ۔یہ زنجیریں ظلم اور زیادتی کی ہیں ۔انسان کی انسان کو غلام
بنانے کی حرص وہوس نے کبھی دم نہیں توڑا ۔چشم تاریخ نے کھوپڑیوں کے مینار بنتے
دیکھے ہیں ۔دھرتی کو خون ناحق سے لالہ زار ہوتے دیکھا ہے ۔ہم نےانگزیز سےتو
آزادی حاصل کرلی
مگر صوبائی ،لسانی ،مذہبی،امیر اور غریب کی زنجیر
سے خود کو ٓازاد نہیں کراسکے ۔ہم جاگیردار،سرمایہ دار،رشوت خور بیوروکریسی،ڈکٹیٹر
شپ اور جاہل،کرپٹ حکمرانوں سے پاکستان کو آزاد نہیں کراسکے ۔ہم غیرت مند ،محنت کش
،محب وطن قوم نہیں بن سکے ۔ہم عجیب قسم کی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں
قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آجتک ہمیں دو مختلف گرو ہوں کےالگ الگ
خیالات و نظریات نظر آتے ہیں ۔مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ملک’’ پاکستان کا
مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ قائد اعظم سمیت تمام
رہنمایان قوم نے ایک علیحدہ خطہ زمین اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم پوری آزادی کے
ساتھ اپنے مذہبی فرائض انجام دے سکیں اور اللہ رب العزت کے پسندیدہ دین اسلام کو
نافذ العمل کرسکیں۔جبکہ سیکولر حلقوں کا کہنا ہے کہ ہمارے رہنما ایک ایسی آزاد
فلاحی و رفاہی ریاست کے لیے ٹکڑہ زمین کے خواہشمند تھے جہاں ہر مذہب کے افراد کو
مذہبی آزادی حاصل ہو ۔کوئی کسی کی عبادت گاہ میں دخل انداز نہ ہو۔انصاف کا بول
بالا ہو، معاشی ، اقتصادی اور سماجی طور پر ترقی ہوسکے اور اقوام عالم میں ہمارا
شمار جمہوری طور پر مستحکم ممالک میں ہو۔مگر بدقسمتی سے
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت اور قائد ملت لیاقت علی
خان کی شہادت کے نتیجے میں اس ملک کو اپنے قیام کے ابتدائی برسوں ہی میں قیادت کے
بحران اور جوڑ توڑ کی سیاست کا سامنا کرنا پڑا ۔جس کے باعث نشان منزل بار بار
اوجھل ہوتارہا۔یہاں تک کہ 1971ء میں غیر ملکی سازشوں ، بھارتی جارحیت اور قیادت
کی نااہلی کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ہم آج تک
بنیادی فیصلے نہیں کر پائے کہ ریاست کو چلانا کیسے ہے ؟ کیا ریاست اسلامی ہونی
چاہئیے یا سیکولر،کیا پارلیمانی نظام بہتر ہے یا صدارتی نظام ،کیا اختیارات کی
مرکزیت ہونی چاہئیے یا لا مرکزیت ؟ کیا صوبوں کو زیادہ اختیہارات ہونے چاہیئں یا
مرکز کو ؟نصاب تعلیم انگریزی میں ہونا چاہئیے یا اردو میں ؟ دفتری زبان انگلش ہوگی
یا اردو؟
سب سے بڑی بدقسمتی کے ہم آج تک ایک قوم نہیں بن سکے ،ہم اپنا نصب
العین طے نہیں کر سکے ،ایک ریوڑ کی طرح ہیں جس کو جو چاہتا ہے اپنی مرضی سے ہانک
کر لے جاتا ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ قابل ،ایماندار،مخلص،دوراندیش قیادت کا فقدان
ہے ۔اگر ہمیں دور اندیش قیادت مل جاتی تو حالات اس سے مختلف ہوتے ۔ملک کے ترقی نہ
کرنے کی بہت بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام بھی ہے ،مفاد پرست سیاستدانوں ،جرنیلوں
،بیوروکریٹوں نے جی بھر کے اس کو لوٹا اور اپنے خاندانوں کی قسمت بدلی مگر کروڑوں
غریبوں کی فکر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ جس کی وجہ سے بیروزگاری
،جہالت،انتہاپسندی،غربت،دہشت گردی،لوڈشیدنگ ،قدرتی آفات،سیلاب،ڈینگی،ہیٹ
سٹروک،کرپشن ،بد انتظامی،قتل وغارت گری جیسے ان گنت مسائل نے گھیرا ہوا ہے ۔خارجہ
پالیسی نام کی کوئی چیز نطر نہیں ٓاتی ۔ہم نے مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے لانگ
ٹرم تو کیا شارٹ ٹرم پلاننگ بھی نہیں کی ۔من حیث القوم ہم محنت کرنے سے کتراتے ہیں
،کلرک سے لیکرصدر تک کرپشن کرنا اپنا حق سمجھتا ہے ۔کوئی بھی شخص اپنی ذمہ داری
ایمانداری سے سر انجام دینے کے لئے تیار نہیں ہے ۔معاشرہ اخلاقی پستی کی حد سے
نیچے گرچکا ہے ۔بظاہر ان حالات سے نکلنا مشکل نظر آتا ہے مگر قوموں کی تاریخ میں
ایسا وقت آتا رہتا ہے ۔ہم عزم و یقین ،محنت ،درست سمت میں سفر شروع کردیں تو ترقی
کی منازل طے کرسکتے ہیں ۔ چین کو ماوزے تنگ جیسا لیڈر ملا جس نے نشے میں دھت قوم
کو شعور دیا اور ایک قوم بنا کر بہت جلد دنیا کی قوموں میں ایک باعزت مقام پر
پہنچا دیا ۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نے اپنے آپ
کو کیسے منظم کیا ۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم من حیث القوم اپنا احتساب کریں
۔اپنے جمہوری نظام کو اس قدر مضبوط، شفاف بنائیں کہ قابل ،ایماندار مخلص، محب وطن
قیادت سامنے آسکے ۔ہمیں ووٹ کی طاقت کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہوگا ،میڈیا
،سول سوسائیٹی کو جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ہر
شہری کو اس کی بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنے ہونگے ،تعلیم
اورصحت کی سہولیات کو عالمی معیار کے مطابق بنانا ہوگا۔معاشرے میں دولت کی منصفانہ
تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا ۔زرعی اصلاحات کرکے ایگریکلچرل نظام کو بہتر بنانا ہوگا
۔عوام کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے نظام انصاف میں ہنگامی
،انقلابی اقدامات کرنے ہونگے ۔ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ ٹیکس دے ،حکومت کی ذمہ داری
ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ ٹیکس کی رقم کرپشن کی نذر نہ ہو بلکہ ملکی ترقی اور
عوام کی فلاح پر خرچ ہو۔ ہر شہری کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ملک کی
ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ۔صوبائی،لسانی،مذہبی،گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر
ملک وقوم کے اجتماعی مفاد کے لئے سوچنا ہوگا ۔قائداعظم کے فرمان ایمان ،اتحاد
،تنظیم کو حرزجان بنانا ہوگا ۔ اگر ہم ہجوم سے قوم بن جائیں اور عزم کرلیں کہ ہم
نے پاکستان کو ترقی یافتہ ،مہذب ،جمہوری ،فلاحی ریاست بنانا ہے تو دنیا کی کوئی
طاقت اس کو نہیں روک سکتی۔ پاکستانی قوم کو اللہ تعالی نے بہت خداداد صلاحیتوں سے
نوازا ہے اسے صرف درست سمت میں رہنمائی اور قابل مخلص دوراندیش قیادت کی ضرورت ہے
جو قوم کی درست سمت رہنمائی کرسکے ۔
Comments
Post a Comment