کفر ٹوٹا خدا خداکرکے
عتیق چوہدری
پیرس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لئے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس میں 195 ممالک شریک ہیں ۔تقریبا 145 ممالک کے سربراہان ،اہم حکومتی عہدیدار اور سیاسی شخصیات شریک ہیں ۔اس کانفرنس میں پاک بھارت تعلقات کے ماحول کوبہتر بنانے کی کوشش بھی سامنے آئی ۔بھارتی وزیراعظم نے وقفے کے دوران وزیراعظم پاکستان نوازشریف سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تونوازشریف نے بھی گرم جوشی سے اس کا جواب دیا ۔دونوں رہنماؤں کے درمیان دو منٹ تک مختصر گفت وشنید بھی سرگوشیوں میں ہوئی ۔ یہ غیر رسمی،بے تکلفی کے ماحول میں مختصر ملاقات پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لئے سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے ۔
اوفا میں شریف ،مودی ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ کے مطابق مذاکرات بھارت نے کشمیری قائدین سے ملاقات کا بہانہ بنا کر ملتوی کردئیے تھے ۔ مودی کی پاکستان کے بارے میں سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے تعلقات کافی کشیدہ ہوگئے تھے ۔ اس ملاقات کو سفارتی حلقوں نے بہت مثبت قرار دیا ہے مگر یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا اس ملاقات سے برف پگھل جائے گی ؟
پاک بھارت تعلقات ہمیشہ سے غیر یقینی صورتحال کے آئینہ دار رہے ہیں ۔ان تعلقات کی تشکیل اور اتار چڑھاؤمیں کئی مثبت اور منفی عوامل کا عمل دخل رہا ہے ۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ دراصل باہمی اعتماد اور ہم آہنگی کے فقدان کی داستان ہے ۔ آزادی کے بعد ،پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر ،سیاچن گلیشئیر،مسئلہ سرکریک اور دریاؤں کے پانی کی تقسیم جیسے اہم مسائل ہیں ۔ اس کے علاوہ دہشت گردی ،دونوں ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت جیسے الزامات بھی دونوں فریق ایک دوسرے پر لگاتے ہیں ۔ بھارت ممبئی حملے ،سکھ تخریب کاروں کی مبینہ امداد جیسے الزامات مختلف فورمز پر دہراتا ہے ،جبکہ پاکستان بلوچستان میں مداخلت ،کراچی میں بدامنی،پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت جیسے الزامات بھارت پر لگاتا ہے ۔پاک بھارت معاملات کو بہتر بنانے کے لئے بہت سی کاوشیں کی گئیں ہیں جن میں 1960-1961 میں برطانیہ اور امریکہ نے عالمی بنک کے تعاون سے سندھ طاس معاہدے کے تحت دریاؤں کی تقسیم کا معاہدہ کروایا ،معاہدے کے تحت چھ دریاؤں میں سے تین دریا راوی،ستلج ،بیاس کو بھارت کے حوالے کردیا گیا ۔ ستمبر 1965 میں تاشقند کے مقام پر پاکستانی صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری میں جنگ بندی کے لئے مذاکرات ہوئے ،پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت کے باوجود 4 جنوری 1966 کو تاشقند میں معاہدہ ہوا ۔ مگر چار سال بعد ہی تعلقات دوبارہ کشیدہ ہوگئے اور 1971 میں جنگ کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوگیا ۔ 1985 میں پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہت خراب ہوگے تھے تو صدر ضیاء الحق نے مالدیپ سے واپس آتے ہوئے بھارت کا دورہ کیا جو صورتحال کو اعتدال کی سطع پر لانے میں دورس نتائج کا حامل ثابت ہوا ۔ نوازشریف کے سابقہ دورحکومت میں واجپائی کے ساتھ مذاکرات اور تصفیہ طلب مسائل پر تفصیلی بات چیت ہوئی تھی ،اعلان لاہور کے باوجود کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی ۔سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت چار نکاتی فارمولا بھی سامنے آیا ۔خارجہ پالیسی کے بعد ماہرین کے مطابق مشرف کا چار نکاتی فارمولا ہی پاک بھارت مسائل کا مستقل حل ہے ۔ شرم الشیخ میں بھی پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات میں مذاکرات بحال کرنے کا وعدہ کیا گیا مگر عملی طور پر تمام مسائل جوں کے توں رہے ۔ روس کے شہر اوفا میں برکس کانفرنس کے موقع پر نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں اس بات کا عہد کیا گیاتھا کہ تمام تصفیہ طلب مسائل حل باہمی بات چیت سے حل کرینگے ۔بعد میں بوجوہ معاملات آگے نہیں بڑھ سکے ۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کی عوام آپس میں خوشگوار اور برابری کی بنا پر دوستی چاہتی ہیں ۔ اس وقت دونوں ممالک اپنے بجٹ کی خطیر رقم دفاع پر خرچ کررہے ہیں اور دونوں ملکوں کو دہشت گردی،انتہاپسندی،غربت،جہالت،بیروزگاری،معاشی پسماندگی ،بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے بنیادی سہولیات جیسے گوناگوں مسائل کا سامنا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے دونوں ممالک مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل باہمی بات چیت کے ذریعہ حل کریں ۔ عالمی برادی خطے میں پائیدار قیام امن کے لئے دونوں ممالک کے درمیان پل کا کردار اداکرے ۔ مشرف دور کے سابق وزیرخارجہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بیک ڈور چینل کے ذریعہ ہم ایک معاہدہ کے قریب پہنچ گے تھے جو بوجوہ مکمل نہیں ہوسکا۔ دونوں ممالک کو الزام تراشی کی روش ترک کے کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کا موقف سننا چاہئیے اور آؤٹ آف دی باکس کسی حل پر غور کرنا چاہئیے ۔ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات اور دوستی کی طرف ہاتھ بڑھانے میں پہل کی ہے اب مودی کو بھی چاہئیے کہ جس طرح انہوں نے پیرس میں پہل کی ہے وہ اس ملاقات کو نتیجہ خیز بنانے اور دورس نتائج کے لئے پاکستان کو باضابطہ مذاکرات کی دعوت دیں ۔اچھی پہل کرنے کے لئے بھارتی حکومت اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دے اور تجارت کو فروغ دینے کے لیئے اقدامات کرے ،تاکہ باہمی اعتماد کی فضا قائم ہوسکے۔ خارجہ امور کے بعض ماہرین اس ملاقات کو 8اور 9 دسمبر کو ہونے والی ہارٹ آف ایشیا ء کانفرنس سے بھی نتھی کر رہے ہیں ۔اگر بھارت کی وزیرخارجہ شمسا سوراج اس کانفرنس میں شریک ہوکر پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کرکے باضابطہ بات چیت کا آغاز کریں تو اس سے برف پگھل جائے گی ۔ وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے اس ملاقات کے بعد صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ملاقات بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی دونوں طرف سے اچھے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے مگر اچھے جذبات کو عملی جامہ پہنانا بہت ضروری ہے ۔ وزیراعظم پاکستان پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ اگر بھارت پیشگی شرائط نہ رکھے تو ہم مذاکرات کے لئے تیارہیں ،پاکستان کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے ہمسائے کی طرح رہے اورمسائل بات چیت سے حل کرے ۔خطے میں پائیدار امن کے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک اسلحے کی دوڑ سے باہر نکلیں ،جنگی جنون کو چھوڑ کر پیسہ اپنی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں ۔ دونوں ممالک میں تعلیم ،صحت،بنیادی ضروریات زندگی ،انفراسٹرکچر،جدید تحقیق ،ٹیکنالوجی ،زرعی سہولیات،تجارت ،ٹرانسپورٹ سمیت بہت سے بنیادی مسائل پر بجٹ خرچ کرنے سے کروڑوں عوام کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی ۔ بڑھتی ہوئی آبادی،دہشت گردی،ماحولیاتی آلودگی ،موسمی تبدیلیاں جیسے اہم مسائل سے نمٹنے کے لئے بھی دونوں ممالک کو الزام تراشی کی بجائے ایک دوسرے سے حل کے لئے تعاون کر ناچاہئیے ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون پہلے ہی دونوں ممالک میں تصفیہ طلب مسائل کے مذاکرات کے ذریعے حل کے لئے تعاون کی پیشکش کرچکے ہیں جو عالمی برادری کی جانب سے اس امر کا اظہار ہے کہ دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان مسائل حل نہ ہوئے تو یہ عالمی امن کے لئے مستقل خطرہ ہونگے ۔دونوں ملکوں کے میڈیا کو بھی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا مظاہرہ کر تے ہوئے ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی بجائے مثبت پہلووٗں پر روشنی ڈالتے ہوئے
قیام امن کی کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ۔


Comments
Post a Comment