زبانوں کا ارتقاء


 

عتیق چوہدری 

لسانیاتی ارتقاء اور پروٹو-انڈو-یورپی (PIE) زبان

لسانیات کے ماہرین کے نزدیک دنیا کی سینکڑوں موجودہ زبانیں ایک ہی قدیم اور معدوم شدہ زبان سے ارتقاء پذیر ہوئی ہیں، جسے پروٹو-انڈو-یورپی (Proto-Indo-European - PIE) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی مفروضہ (Reconstructed) زبان ہے جس کے بولنے والوں نے ہند-یورپی زبانوں کے خاندان کی بنیاد رکھی، جس میں اردو، ہندی، انگریزی، ہسپانوی اور فارسی جیسی دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں شامل ہیں۔

اردو ماہر لسانیات خلیل صدیقی اپنی کتاب "زبان کا ارتقا" میں لسانیات کے بنیادی مباحث کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے، زبان کے آغاز اور مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کی یہ کاوش لسانیات کو ایک ایسے علم کے طور پر متعارف کراتی ہے جس میں صرف انسانی زبان پر سائنسی بحث کی جاتی ہے۔

پروٹو-انڈو-یورپی کا ماخذ، پھیلاؤ 

ماہرین کا اندازہ ہے کہ پروٹو-انڈو-یورپی زبان آج سے 5,500 سے 8,000 سال پہلے بولی جاتی تھی۔ تاریخی لسانیات کے محققین اس کے ماخذ کو موجودہ یوکرائن اور قازقستان کے قریب بحیرہ اسود کے شمال میں واقع پونٹک-کیسپین سٹیپ (Pontic-Caspian Steppe) کے علاقے سے منسوب کرتے ہیں۔

 * مشہور ماہر لسانیات ڈیوڈ ڈبلیو۔ اینتھونی (David W. Anthony) نے اپنی کتاب "The Horse, the Wheel, and Language" میں اس مفروضے کو تقویت دی کہ کانسی کے دور کے سواروں نے کس طرح یوریشیائی میدانوں میں نقل مکانی کرتے ہوئے اس زبان کو پھیلا کر جدید دنیا کی لسانی نقشہ کشی میں اہم کردار ادا کیا۔ اینتھونی کا کام آثار قدیمہ اور لسانیات کو یکجا کر کے اس ہجرت کے عمل کو ٹھوس تاریخی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

 * اسی طرح، جے پی۔ میلوری (J. P. Mallory) اور ڈی۔ کیو۔ ایڈمز (D. Q. Adams) کی کتاب "The Oxford Introduction to Proto-Indo-European and the Proto-Indo-European World" PIE کی تشکیل نو کو نہ صرف لسانی ساخت کے لحاظ سے دیکھتی ہے بلکہ ثقافتی اور معاشرتی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیتی ہے، جس سے اس گمشدہ تہذیب کے بارے میں معلومات سامنے آتی ہیں۔

جیسے جیسے بولنے والے مختلف خطوں میں منتشر ہوئے، یہ قدیم زبان مقامی ماحول، دیگر ثقافتوں اور بولیوں کے اثرات کی وجہ سے تبدیل ہوتی رہی۔ جغرافیائی دوری اور ثقافتی اختلاط نے PIE کو کئی شاخوں میں تقسیم کیا، جس میں ہند-ایرانی شاخ سب سے اہم ہے۔

ہند-ایرانی سے فارسی، عربی اور اردو کا ارتقاء

پروٹو-انڈو-یورپی کی ہند-ایرانی شاخ سے فارسی (ایرانی زبانوں کا حصہ)، اور پھر شمالی ہندوستان کی ہند-آریائی زبانیں (جن سے اردو نکلی) ارتقاء پذیر ہوئیں۔ تاہم، عربی زبان کا لسانی خاندان اس سے مکمل طور پر مختلف ہے، جس کا تعلق سامی (Semitic) لسانی خاندان سے ہے۔ اس کے باوجود، یہ تینوں زبانیں تاریخی اور ثقافتی طور پر ایک دوسرے پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں۔

۱. فارسی (Farsi/Persian) - ایک براہ راست وارث:

فارسی براہ راست ہند-یورپی خاندان کی ایرانی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جس نے وقت کے ساتھ سنسکرت (ہند-آریائی شاخ کی زبان) کی طرح اپنی بہت سی قدیم خصوصیات کو محفوظ رکھا ہے۔ قدیم فارسی (Old Persian)، پہلوی (Pahlavi) اور پھر جدید فارسی (Dari/Farsi/Tajiki) کے مراحل طے کیے۔

۲. عربی (Arabic) - سامی خاندان کا اثر:

عربی کا تعلق پروٹو-انڈو-یورپی خاندان سے نہیں ہے، بلکہ اس کا ارتقاء پروٹو-سامی زبان سے ہوا۔ یہ زبان اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ایک عالمی زبان بن گئی اور اس نے لسانی اختلاط کے ذریعے فارسی اور اردو کے ذخیرۂ الفاظ پر گہرا مذہبی اور تہذیبی اثر ڈالا۔ اس طرح، اگرچہ یہ خاندان میں شریک نہیں، مگر لسانی تاریخ میں اس کا کردار کلیدی ہے۔

۳. اردو (Urdu) - اختلاط اور تشکیل:

اردو کا بنیادی ڈھانچہ (Grammatical Structure) ہند-آریائی زبانوں خصوصاً دہلی اور اس کے گرد و نواح کی بولیوں، جیسے کھڑی بولی، کے خمیر سے تیار ہوا ہے۔ یہ ہند-یورپی خاندان کے ہند-آریائی گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔

 * مرزا خلیل احمد بیگ اپنی کتاب "اردو کی لسانی تشکیل" میں اردو کے آغاز سے متعلق مختلف نظریات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اردو کا ڈھانچہ خالص ہندوستانی ہے۔

 * لیکن اردو کی تاریخی شناخت کا اہم پہلو اس کا مخلوط یا "ملواں" کردار ہے۔ مسلمانوں کی آمد اور مختلف ثقافتوں کے اختلاط کے نتیجے میں اردو نے عربی اور فارسی کے الفاظ کو بڑے پیمانے پر اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کا ذخیرۂ الفاظ اس کی تاریخی سفر اور ثقافتی تنوع کا عکاس ہے۔

اس لسانیاتی ارتقاء کو "قدرتی ارتقاء" کے اصول کے تحت سمجھا جا سکتا ہے، جہاں زبانوں کا آزادانہ اختلاط اور بات چیت، یعنی ایک دوسرے سے قرض لینا، ان کے ارتقاء کی رفتار کو تیز کرتا ہے۔ اس طرح، اردو زبان کروڑوں لوگوں کی لسانی میراث بن کر سامنے آتی ہے جو صدیوں کے ثقافتی تبادلے اور تہذیبی ہم آہنگی کا نچوڑ ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟