افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

 

عتیق چوہدری
عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا کا پھیلاؤ جہاں معلومات کی ترسیل کو بے حد تیز اور آسان بنا چکا ہے، وہیں اس نے جھوٹی، من گھڑت اور گمراہ کُن خبروں کے  ایک خطرناک رجحان کو بھی جنم دیا ہے ۔ آج فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن قومی سلامتی، سماجی استحکام اور جمہوری آزادیوں کے لئے  ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔یہ منظم افواہیں اتنی مہارت اور تیزی سے پھیلتی ہیں کہ عام شہری کے لئے  سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے، خصوصاً اُن لمحات میں جب ملک کسی سیاسی بحران، قدرتی آفت یا ہنگامی صورتحال سے گزر رہا ہو۔ محض ایک غلط ویڈیو، فرضی دعویٰ یا جعلی بیان لمحوں میں لسانی، مذہبی یا سیاسی کشیدگی کو بھڑکا سکتا ہے۔مصنوعی ذہانت (A I) اور ڈیپ فیکس جیسی  جدید ٹیکنالوجیز نے اس خطرے کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اب جھوٹ صرف الفاظ میں نہیں بلکہ تصویروں اور وڈیوز کی شکل میں بھی حقیقت کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آتا ہے جس کے نتیجے میں  معاشرہ بے یقینی، انتشار اور عدم اعتماد کا شکار ہو رہا ہے۔۔جمہوریت کی بنیاد آزادیٔ اظہار اور معلومات تک رسائی پر استوار ہوتی ہے لیکن یہی آزادی اس وقت خطرے میں پڑ جاتی ہے جب جھوٹی معلومات اس کا لبادہ اوڑھ کر عوامی رائے کو گمراہ کرنے لگتی ہیں۔اقوامِ متحدہ کے عالمی انسانی حقوق کے اعلامیے کا آرٹیکل 19 ہر فرد کو معلومات کی تلاش، وصولی اور ترسیل کا حق دیتا ہے تاہم یہ حق ذمہ داری اور اخلاقی احتیاط کا بھی متقاضی ہے۔ عالمی اداروں نے اس پر زور دیا ہے کہ گمراہ کُن معلومات پر قابو پانے کے نام پر سنسر شپ نافذ نہ ہو
اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندوں کے ایک مشترکہ اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ:"عام معلومات کو محض 'غلط خبر' یا 'غیر معروضی معلومات' کے نام پر روک دینا آزادیِ اظہار کی بین الاقوامی ضمانتوں کے خلاف ہے۔"یعنی ریاستوں کو آزادیٔ اظہار کے بہانے سنسر شپ نافذ کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا، البتہ اُن پر یہ ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے کہ وہ جھوٹی معلومات خود نہ پھیلائیں۔۔چاہے دانستہ ہو یا غفلت سے۔ یہ اصول حکومتوں، میڈیا اداروں اور سیاسی جماعتوں سب پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔یہ اصول حکومتی ترجمانوں اور میڈیا کے لیے ایک اہم رہنما اصول ہونا چاہیے کیونکہ جعلی خبروں کے منظم پھیلاؤ نے صحافتی ماحول کو بھی شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (RSF) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ "جعلی خبروں کی منظم صنعت" آج صحافتی آزادی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ 2023 کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے تقریباً دو تہائی ممالک میں سیاسی قوتیں منظم طور پر گمراہ کُن پروپیگنڈا مہمات میں ملوث پائی گئیں۔پاکستان بھی اس چیلنج سے مستثنیٰ نہیں۔ یہاں  صحافیوں کو نہ صرف ریاستی پابندیوں کا سامنا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر منظم نفرت انگیز مہمات کے ذریعے ان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔پاکستان میں جعلی خبریں نہ صرف معاشرتی بے چینی پھیلاتی ہیں بلکہ معیاری صحافت کو بھی کمزور کرتی ہیں، جو شہریوں کے باخبر رہنے کے حق کی واضح خلاف ورزی ہے۔مصنوعی ذہانت جہاں ڈیپ فیکس اور جھوٹی وڈیوز کے ذریعے فریب کا ذریعہ بن رہی ہے، وہیں یہ حقائق کی جانچ میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔۔یونیسکو نے 2021 میں اپنی "مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات سے متعلق سفارش" میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے اخلاقی نگرانی اور شفافیت پر زور دیا۔عالمی اقتصادی فورم کے مطابق اے آئی سے جڑی گمراہ کُن معلومات دنیا کے سب سے بڑے خطرات میں شامل ہو چکی ہیں  کیونکہ اب "قابلِ بھروسہ معلومات جھوٹ کے طوفان میں دب رہی ہیں۔"اے آئی خود نہ دشمن ہے نہ دوست؛ یہ صرف اُن اقدار اور نیتوں کی عکاسی کرتی ہے جو اس کے پیچھے کارفرما ہیں۔ یہ مسئلہ محض سنسر شپ سے حل نہیں ہو سکتا۔ اس کا پائیدار علاج ڈیجیٹل خواندگی  میں ہے۔۔۔یونیسکو کے "میڈیا اینڈ انفارمیشن لٹریسی" پروگرام کا مقصد یہی ہے کہ شہریوں میں تنقیدی سوچ کو فروغ دیا جائے تاکہ وہ ہر خبر کو پرکھنے کی صلاحیت حاصل کر سکیں۔شہریوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ وہ معلومات پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے ہمیشہ سوال کریں: خبر کا ذریعہ کیا ہے؟ کیا یہ تصدیق شدہ ہے؟ یہ خبر کیوں پھیلائی جا رہی ہے؟اس خبر کوپھیلانے والے کے خفیہ مقاصد تو نہیں ہیں ؟ اس خبریا انفارمیشن کا اصل ذریعہ کیا ہے اس شخص نےیہ بات کی بھی ہے یا نہیں ؟ 

پاکستان جیسے ملک میں ایک جامع تین نکاتی حکمتِ عملی درکار ہے۔۔سب سے پہلے  گمراہ کُن مواد اور جعلی خبروں کے نیٹ ورکس کی نشاندہی، ان کی مالی معاونت کی روک تھام اور سائبر جرائم پر قابو پانے کے لیے متوازن اور شفاف قوانین مرتب کیے جائیں — ایسے قوانین جو آزادیٔ اظہار کو محدود نہ کریں بلکہ ذمہ داری کے ساتھ اس کا تحفظ کریں۔۔دوسرےنمبر پرمیڈیا ادارے اپنے اندرونی احتسابی نظام کو مضبوط کریں اور حقائق کی جانچ (Fact-Checking) کے شعبے کو فروغ دیں تاکہ عوام کے اعتماد کی بحالی ممکن ہو۔ اس کے علاوہ  ڈیجیٹل خواندگی کو قومی نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل سچ، رائے اور فریب کے درمیان فرق کرنے کے قابل ہو سکے۔۔فیک نیوز ،ڈس انفارمیشن اس وقت بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے جس کا بروقت ادراک بہت ضروری ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پیکا ایکٹ 2016 اور دیگر سائبر قوانین کا استعمال اکثر اختلافِ رائے دبانے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیمیں مسلسل اس بات پر تنقید کرتی رہی ہیں کہ یہ قوانین گمراہ کُن معلومات کے انسداد کے نام پر دراصل اظہارِ رائے کی آزادی کو محدود کر دیتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قوانین کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق شفاف، متناسب اور غیر امتیازی بنایا جائے۔اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف بھی یہی ہے کہ حکومت تنقید سے بچنے کے لیے ایسے اقدامات کر رہی ہے جو معاشرتی سطح پر خوف اور خود سنسرشپ کو فروغ دیتے ہیں  اور یہی کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔فیک نیوز کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے صرف حکومت یا میڈیا ہی کافی نہیں۔ یہ اجتماعی ذمہ داری ہے  جس میں ریاستی ادارے، میڈیا، تعلیمی نظام، بین الاقوامی تنظیمیں اور ہر باشعور شہری شامل ہیں۔جب تک ہم سب حقائق کے دفاع کے لیے متحد نہیں ہوں گے یہ جعلی مواد خاموشی سے ہمارے اعتماد، ہمارے اداروں اور ہماری قومی سلامتی کو کھوکھلا کرتا رہے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

زبانوں کا ارتقاء