الیکشن 2018کی شفافیت پر سوالات ؟


عتیق چوہدری

الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ملک میں غیر جانبدار،شفاف ،دھاندلی سے پاک الیکشن کرواناہے ۔مگر انتخابی اصلاحات 2017 کے بعد الیکشن کمیشن کو بہت سے کاغذی اختیارات ملنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت پر بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے مرحلے پر میڈیا اور انتخابی مبصرین کی رسائی پر قدغن لگا دی گئی ہے، من پسند امیدواروں کو منتخب کروایا جائے گا اور قوم اپنے نمائندوں کے حقائق سے بے خبر رہے گی اور اسے اپنے نمائندوں پر یقین ہی نہیں ہوگا اور امیدواروں نے جو حقائق کاغذات نامزدگی میں درج کئے ہیں ان پر اعتراض لگانے کے لئے قوم کو اندھیرے میں رکھا جائے گا اور ریٹرننگ آفیسرز با اثر سیاسی شخصیات کے دباؤمیں رہیں گے۔
غیر ملکی مبصرین کو الیکشن کی مانیٹرنگ سے روکنے کے لئے ایسا طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے کہ ان کو محدود کیا جائے تاکہ الیکشن میں ہونی والی بے ضابطگیاں عالمی اداروں و میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہیں ۔الیکشن کمیشن نے ابھی تک امیدواروں کے اخراجات کی حد پر عملدرآمد کا میکنیزم وضع نہیں کیا گذشتہ ہونے والی ضمنی انتخابات میں پیسے کا بے تحاشہ استعمال کرکے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی گئیں تو الیکشن کمیشن ان تمام امیدواروں کو نااہل کرنے کی صلاحیت و جرات رکھتا ہے ؟ الیکشن میں امیدواروں کی سیکروٹنی کے لئے 62,63(مبہم ) کی وضاحت ابھی تک نہیں کی گئی؟ الیکشن سے پہلے پری پول دھاندلی عروج پر ہے وفاقی حکومت اپنی من مرضی سے ،جبکہ خیبر پختونخواہ،سندھ اور پنجاب حکومت انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کے لئے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز پری پول دھاندلی کے لئے استعمال کررہی ہے جو غیر قانونی ،انتخابی قواعد اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے مختلف ترقیاتی پراجیکٹس پر راتوں رات کڑوروں ،اربوں کے فنڈزجاری ہورہے ہیں ،سولنگ ،نالیاں ،سٹریٹ لائیٹس ،فلٹریشن پلانٹس،روڈز ،پل تک کے منصوبے پری پول دھاندلی ہیں ۔الیکشن کمیشن نے روایتی پریس ریلیز کے علاوہ کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔۔۔۔بہت سے ایسے سوالات ہیں جو الیکشن کی شفافیت پر اٹھ رہیں ۔دھاندلی و بے ضابطگیوں کے الزمات سے بچنے کے لئے الیکشن کمیشن کو بلاامتیاز ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کو 

یقینی بنانے کے لئے سخت ایکشن لینا ہونگے

سیاست میں پیسے کا بے تحاشہ استعمال وہ مسئلہ ہے جس پر زیادہ بات کی جانے چاہیے اور اس کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات بھی کئے جانے چاہئیں لیکن بدقسمتی سے الیکشن ایکٹ2017ء میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی انتخابی مہم پر خرچ کی جانے والی رقم پر بھی قدغن نہیں لگائی گئی۔ اگرچہ ہمارے روایتی انتخابی قوانین میں کسی ایک امیدوار کی انتخابی مہم پر خرچ کی جانے والی رقم کی حد تو مقرر کی کی گئی تھی( مگر عملدرآمد کا میکنیزم بہت کمزور ہے) ،اور نئے قانون میں بھی اس کو مزید بہتر کیا گیا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ماضی میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے خرچ کی جانے والی رقم اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھی کیونکہ انتخابات پر زیادہ تر رقم امیدواروں کی جانب سے خرچ کی جاتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات تبدیل ہو گئے ہیں ۔ موجودہ دور میں سیاسی جماعتیں اور ان کی فنڈنگ کسی بھی الیکشن کے نتیجے پر پہلے سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے کئے جانے والے بہت سے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امیدوار کی بجائے سیاسی جماعت کو ووٹ دینے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی خرچ کئے جانے والے فنڈز میں2002ء کے بعد نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ یہ وہ سال ہے جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا سیاسی اکھاڑے میں ایک بڑے کھلاڑی کی حیثیت سے داخل ہوا تھا۔اس وقت سے لے کر آج تک سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی ایجنڈے کی تشہیر کے لئے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کررہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر کی جانے والی یہ تشہیر کسی ایک انتخابی حلقے کے متعلق نہیں ہوتی اس لئے قانونی لحاظ سے اس تشہیر پر خرچ کی جانے والی رقم پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کے بعد سیاسی جماعتوں کی طرف سے اشتہارات پر خرچ کی جانے والی رقم میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے ابتدائی ڈرافٹ میں اس رقم کو 200 ملین روپے تک محدود کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے فائنل ڈرافٹ میں اس شق کو نکال دیا گیا۔سیاسی جماعتوں کو رقم خرچ کرنے کی آزادی سے دراصل پیسے کو سیاست میں آنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ پارٹی اخراجات پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتیں فنڈنگ کے ایسے ذرائع بھی تلاش کرسکتی ہیں جنہیں قانونی اور اخلاقی لحاظ سے درست نہیں سمجھا جاتا۔سیاسی جماعتوں کے اخراجات پر روک ٹوک نہ ہونا ہماری انتخابی نظام کی ایک بہت بڑی خامی ہے اور عام انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ایک موثر پولیٹیکل فنانس مانیٹرنگ سسٹم کا رائج کیا جانا انتہائی ضروری ہے
جمہوریت کا مطلب ایسا نظام حکومت ہے جس میں جمہور کو عملی طور شریک کیا جا تا ہے ۔نظام انتخاب میں ایسا میکنیزم ہونا چاہئیے کہ کہ ایک عام آدمی اپنی قابلیت ،صلاحیت ومحنت کے بل بوتے پر الیکشن میں حصہ لے سکے اور سستم اس کو اس کی قابلیت و صلاحیتوں کی وجہ سے قبول بھی کرے وترقی کرنے کے مواقع بھی دے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست پیسے کا کھیل بن گئی ہے ۔نظام میں عام آدمی کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر انتخابی عمل میں عام آدمی کی کوئی گنجائش ہی نہ نکل سکے گی تو سلطانی جمہور کے تقاضے کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟ عوام کی نمائندگی کی دعویدار سیاسی جماعتوں نے حقیقی انتخابی اصلاحات کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تعاون میں پس و پیش سے کام لیا اور جمہوری انتخابی نظام لانے میں اپنی قومی ذمہ دا ریوں کو پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مروجہ انتخابی نظام میں موجود قباحتوں کے باعث ہی عام آدمی کے انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد قائم ہونے کی آج تک فضاءاستوار نہیں ہو سکی جب کہ ان قباحتوں کے نتیجہ ہی میں الیکشن کمیشن آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں ناکامی اور انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی زد میں آتا رہا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی غیر جانبداری پر بھی سوالات اٹھتے رہے! کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے کلچر میں آلودہ ہمارے انتخابی نظام نے ہمیشہ مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کو ہی تقویت پہنچائی ہے چنانچہ ان طبقات کے ہاتھوں راندہ درگاہ بنے عوام کو مروجہ انتخابی نظام کے ذریعے اپنی حکمرانی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے اور سلطانی جمہور حکمران اشرافیہ کی باندی بن کر رہ گئی ہے۔
وطن عزیز کو ایسی پارلیمنٹ کی ضرورت ہے جس کےنمائندےذات،برادری،پیسہ،دھونس،دحاندلی کی بنا پر نہیں بلکہ قابلیت،مہارت،قانون سے آگہی،تعلیم و تجربہ کی بنیاد پر قانون سازی کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد ہوں ۔ایسے قابل ،محنتی ،مخلص و وفادار لوگوں کے راستے میں کرپٹ نظام انتخاب ہے جو صرف سرمایہ دار،جاگیردار،وڈیرے ،سردار اور مخصوص الیکٹیبلز کے مفادات کا محافط ہے ۔اس نظام میں عام آدمی کو جگہ دئیے بغیر حقیقی تبدیلی ممکن نہیں


Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء