دور نو کا تقاضا،خارجہ پالیسی کی از سرنو تشکیل
وطن عزیز کا جغرافیائی محل وقوع پاکستان کو دنیا کی اہم طاقتوں کی نظر میں اہم بناتاہے ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستون ملکی سالمیت اور اقتصادی ترقی ہے۔کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ ہر ریاست اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے دشمنوں اور دوستوں کا تعین کرتی ہے ۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان غیر جانبداریت کی پالیسی کے قائل تھے مگر ان کا جھکاؤ مغربی بلاک کی طرف زیادہ تھا ۔ سٹالن نے 1948 میں لیاقت علی خان کو روس کے دورے کی دعوت دی مگر پاکستان نے وہ قبول نہیں کی ۔خارجہ پالیسی کے ماہرین اس کو خارجہ پالیسی کی بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہیں ۔ سرد جنگ کے دور میں بھی پاکستان امریکن بلاک کو سپورٹ کرتا رہا مگر امریکہ نے 1965 ،1971 میں پاکستان کو ایک اتحادی کے طور پرمکمل سپورٹ نہیں کیا ۔سرد جنگ کے دوران پاکستان کے ساتھ روس کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ افغان جہاد کے بعد تو روس پاکستان کو دشمن ہی سمجھنے لگ گیا تھا ۔ 9/11 کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا صف اول کا اتحادی بن گیا ۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑااور ساٹھ ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے ۔ بدلتی ہوئی خطے اور عالمی صورتحال میں پاکستان نے چین اور روس کی طر ف دوستی کا ہاتھ بڑھانا شروع کیا ہے ۔چین تو شروع سے پاکستان کا بہت اچھا دوست ہے ہرمشکل وقت میں چین نے پاکستان کی ہر ممکن مدد کی ہے مگر روس کے ساتھ معاملہ مختلف رہا ہے ۔ پچھلی دہائی میں عالمی سطع پر بہت ساری اہم تبدیلیاں آئی ہیں جن میں مشرق وسطی کے ممالک مصر،شام،لیبیا،تیونس کی اندرونی صورتحال میں عالمی طاقتوں کی اپنے مفادات کی خاطر مداخلت سرفہرست ہے۔اس صورتحال میں روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا ایک اچھی کوشش ہے ،روسی فوجی دستہ کا پاکستان میں آکر مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لینے سے باہمی اعتماد بحال ہوگا ۔بھارتی فورسز کا نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم جاری ہے ،پاکستان جب بھی اس مسئلہ کوعالمی سطع پر اٹھانے کے لئے کوششیں تیز کرتا ہے بھارت پاکستان پر جھوٹے الزامات لگا کر پروپگینڈا شروع کردیتا ہے ۔اُڑی حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہرزہ سرائیوں اور جنگی جنون کی وجہ سے خطے میں امن کی کوششوں کو خطرہ لاحق ہے ۔وزیراعظم پاکستان نے درست کہا کہ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل تک خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا ۔اگر بھارت نے کوئی بھی مہم جوئی کی تو پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر پاک فوج کے شانہ بشانہ وطن عزیز کے چپے چپے کا دفاع کرے گی ۔ عالمی سطع پر ہماری خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہوئی ہے ،حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لیکر خارجہ پالیسی کا ازسرنو تعین کرے ۔آج کے جدید دور میں جنگیں پروپگینڈہ اور سفارتی محاذ پر لڑی جاتی ہیں ۔ویسے تو جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے تمام مسائل کا حل مذاکرات اور امن سے ہی ۔ممکن ہے
،دونوں ممالک کو اپنی عوام کی فلاح وبہبود ،بنیادی ضروریات ،صحت،تعلیم،روزگاراور دیگر مسائل پر توجہ
دینی چاہئیے اور تمام تصفیہ طلب مسائل مذاکرات سے حل کرنے چاہئیے
،دونوں ممالک کو اپنی عوام کی فلاح وبہبود ،بنیادی ضروریات ،صحت،تعلیم،روزگاراور دیگر مسائل پر توجہ
دینی چاہئیے اور تمام تصفیہ طلب مسائل مذاکرات سے حل کرنے چاہئیے
مگر بھارتی میڈیا کی روایتی ہٹ دھرمی اور مودی کی انتہا پسند پالیسیوں کی وجہ سے ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا ۔کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ثبوت پاکستان نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو فراہم کردئیے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایکشن لیں اوربھارت کو اس ظلم وستم سے منع کریں ۔مگر امریکہ کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے دفاعی معاہدے پاکستان کیلئے تشویش کا باعث ہیں کیونکہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑے گا جو کسی بھی صورت خطے کے مفاد میں نہیں ۔پاکستان کو داخلی وخارجی محاذ پر سخت چیلنجز کا سامنا ہے مگر حکومت کی ان بحرانوں کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے ۔پانامہ لیکس کی تحقیقات اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملہ کو حل کئے بغیر اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کو روکنا بہت مشکل ہے ۔حکومتی وزرا ء کا اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف سخت لب ولہجہ بھی مسائل میں اضافہ کررہا ہے ۔اداروں کے درمیان کشمکش کی بحث اب ڈرائنگ روم سے باہر نکل کر میڈیا اور ایوانوں میں زیر بحث ہے ۔تمام اداروں اور سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو ان بحرانوں سے نکالنے کے لئے ذاتی مفادات سے باہر نکل کر سنجیدہ اقدامات کریں ۔
bohut a'ala :)
ReplyDelete