Posts

دو اپوزیش لیڈروں کی لڑائی اور قومی حکومت کا مطالبہ

Image
عتیق چوہدری  موجودہ اور سابقہ اپوزیشن  لیڈروں کی لڑائی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ بعض حلقے اس پر تشویش کا شکارہیں ،گزشتہ چند دنوں میں ہونے واقعات ،بیان بازی اور منظرنامہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتہ ہے جو مک مکا پہلے ڈرائینگ روموں تک محدود تھا وہ اب سرخیوں کی زینت بن رہا ہے ایک مشہور محاورہ ہے اس حمام میں سب ننگے ہیں  ۔ باخبر زرائع ان معاملات کی کڑیاں عزیر بلوچ ،رینجرز کا کراچی آپریشن وملک کے دفاع سے متعلقہ ادارے کے ذمہ داران سے بھی جوڑتے ہیں ۔ جو معاملات اتنے سادہ نظر آرہے ہیں دراصل حد سے زیادہ گھمبیر ہیں ۔ہر کوئی اپنی سیاست چمکا رہا ہے ،اقتدار کی رسہ کشی کے اس کھیل میں غریب عوام کہیں بھی نہیں ہے ۔سول و عسکری قیادت میں اختلافات کی خبریں بھی آئے روز خبروں کی زینت بنتی ہیں مگر اعتزاز احسن کے قومی حکومت کے مطالبہ نے سب کو چوکنا دیا ہے ۔یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جو دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ،جمہوریت کا راگ آلاپتے نہیں تھکتے تھے آج وہی اعتزاز احسن حکومت کی چھٹی کرواکر قومی حکومت کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ملکی مسائل کے حل کے لئے قومی حکومت یا ٹیکنو کریٹ حکومت کی ب...

شخصیات نہیں ۔۔۔۔ادارے مضبوط بنائیں

Image
عتیق چوہدری  گلوبل ویلیج کی رواں صدی میں کوئی بھی ریاست اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی جب تک اس کے ادارے مظبوط نہ ہو ۔جس ریاست کے ادارے کمزور ہوں اور شخصیات مظبوط ہو وہ ریاست کمزور ہوتی ہے ۔پاکستان سمیت دیگرترقی پذیر ممالک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر ادارے مظبوط نہیں ہوسکے ۔بدقسمتی سے ناعاقبت اندیش سیاسی قیادت اور اقتدار کے شیدا بعض فوجی جرنیلوں نے ملک میں جمہوریت کو مستحکم نہیں ہونے دیا اور نہ اداروں کو مظبوط ہونے دیا ۔مختلف لوگ مختلف نعروں کے ساتھ قوم کو اپنا ہمنوا بناتے رہے مگر کوئی بھی حقیقی مسیحا نہ بنا ۔بے ہنگم ،بے سمت قوم کو جس شخصیت میں بھی امید کی کوئی جھلک نظر آتی ہے وہ اس کو اپنا مسیحا سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔وہ نعرہ روٹی ،کپڑا ،مکان ،ملک میں احتساب کا ہو،شریعت کے نفاذیا نظام مصطفی کا نفاذہو ۔کبھی قوم کو تبدیلی اور انقلاب کی امید دلائی گئی تو کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا ۔ مگر کسی بھی حکمران نے اداروں کو مظبوط نہیں کیا نہ ہی پروفیشنلزم کو فروغ دینے کے لئے عملی اقدامات کئیے ۔ملک میں تیس سال سے زیادہ عرصہ فوجی آمریت رہی اداروں کے درمیان اختیارات کی جن...

لاہور ڈیکلریشن کیا تھا ؟

Image
پاکستان میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے تاریخی شہر کو آخری مرتبہ سنہ 1999 میں اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اُس وقت بھی پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکمرانی تھی اور نواز شریف ہی وزیر اعظم اور ان کے بھائی شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ نریندر مودی کی طرح اٹل بہاری واجپائی کا تعلق بھی دائیں بازو کی ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تھا۔ واجپائی واہگہ بارڈر کے راستے بس کے ذریعے لاہور پہنچے تھے اور انھوں نے 1940 کی قرارداد پاکستان کی یاد میں بنائے جانے والے مینار پاکستان کے تلے کھڑے ہو کر پاکستان کو ایک حقیقت تسلیم کرنے کی بات کی تھی۔ اس موقعے پر 21 فروری کو دونوں ملکوں کے وزیر اعظموں نے ’لاہور ڈیکلریشن‘ پر دستخط کیے تھے۔ 16 نکات پر مشتمل یہ ڈیکلریشن دونوں ملکوں کے خوشحال مستقبل، خطے میں امن اور استحکام، دونوں ملکوں کے عوام میں دوستانہ اور برادرانہ تعلقات اور تعاون کے عزم کے اظہار سے شروع ہوا تھا۔ جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کہاگیا تھا کہ جوہری صلاحیت دونوں ملکوں پر یہ اہم ذمہ داری عائد کرتی  ہے کہ دونوں ملک مسلح تصا...

بھارتی وزرائے اعظم کے پاکستانی دورے تاریخ کے آئینے میں

Image
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پاکستان آمد سے قبل 4 بھارتی وزرائے اعظم پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جواہر لعل نہرو پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم تھے۔ جواہر لعل نہرو نے 1953 میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر کرانے کے لئے پاکستان کا دورہ کیا، اس وقت محمد علی پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ جواہر لعل نہرو نے دوسری مرتبہ 1960 میں صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کا دورہ کیا۔ جواہر لعل نہرو کے اس دورے کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کا تنازع حل کرنے کے لئے تاریخی سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ اس دورے کے دوران جواہر لعل نہرو نے کراچی، اسلام آباد اور مری کا دورہ کیا۔ پاکستان کا تیسرا دورہ جواہر لعل نہرو کے پوتے راجیو گاندھی نے 1988 میں کیا۔ اس وقت پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو تھیں۔ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے فروری 1999 میں پاکستان کا دورہ کیا، اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔

کفر ٹوٹا خدا خداکرکے

Image
عتیق چوہدری پیرس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لئے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس میں 195 ممالک شریک ہیں ۔تقریبا 145 ممالک کے سربراہان ،اہم حکومتی عہدیدار اور سیاسی شخصیات شریک ہیں ۔اس کانفرنس میں پاک بھارت تعلقات کے ماحول کوبہتر بنانے کی کوشش بھی سامنے آئی ۔بھارتی وزیراعظم نے وقفے کے دوران وزیراعظم پاکستان نوازشریف سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تونوازشریف نے بھی گرم جوشی سے اس کا جواب دیا ۔دونوں رہنماؤں کے درمیان دو منٹ تک مختصر گفت وشنید بھی سرگوشیوں میں ہوئی ۔ یہ غیر رسمی،بے تکلفی کے ماحول میں مختصر ملاقات پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لئے سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے ۔ اوفا میں شریف ،مودی ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ کے مطابق مذاکرات بھارت نے کشمیری قائدین سے ملاقات کا بہانہ بنا کر ملتوی کردئیے تھے ۔ مودی کی پاکستان کے بارے میں سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے تعلقات کافی کشیدہ ہوگئے تھے ۔ اس ملاقات کو سفارتی حلقوں نے بہت مثبت قرار دیا ہے مگر یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا اس ملاقات سے برف پگھل جائے گی ؟  پاک بھارت تعلقات ہمیشہ سے غیر یقینی صورتحال کے آئینہ...

تعلیم برائے فروخت

Image
عتیق چوہدری کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس میں معیاری تعلیم وتحقیق کو فروغ نہ دیا جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹنے والوں نے کبھی اس بنیادی معاملے پر غورو فکر کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ۔سیاسی،سماجی،معاشی و معاشرتی زوال ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے مگر ہمارے پالیسی سازوں کی ترجیحات میں تعلیم کے فروغ نام کی کوئی ترجیح شامل نہیں ۔ جس کا اندازہ تعلیمی بجٹ سے کیا جاسکتا ہے جو کل بجٹ کا ۲ فیصد بنتا ہے ۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل پچیس اے کے مطابق ہر شہری کو تعلیم کی سہولیات مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوگی ۔کسی بھی حکومت نے اس آئینی ذمہ داری کو صحیح معنوں میں پورا نہیں کیا ۔ پبلک سیکٹریونیورسٹیوں میں تحقیق کا معیار عالمی سطع کے تحقیقی کام کے معیار سے بہت پست ہے جس کی وجہ مناسب سہولیات کا فقدان ہے ۔ اسی وجہ سے ہماری کوئی بھی یونیورسٹی عالمی رینکینگ کی پہلی  یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہے ۔ اس میدان میں رہی سہی کسر پرائیویٹ یونیورسٹیز نے نکال دی جو طالب علموں سے لاکھوں روپے فیس وصول کرتے ہیں اور ڈگری اس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہ...

فیض انٹرنیشل فیسٹیول خوشگوار ہوا کا جھونکا

Image
عتیق چوہدری  فیض انٹرنیشنل فیسٹیول کا انعقاد الحمرا آرٹس سنٹر میں ہورہا ہے  ۔ خاکسار کو بھی اس فیسٹیول میں شرکت کرنےکا موقع ملا ۔   فیسٹیول کا مقصد بیسویں صدی کے عہد ساز شاعر فیض احمد فیض کو خراج تحسین پیش کرنا ہے ۔فیض انقلاب اور سماجی انصاف کا استعارہ تھے ۔فیض امن کا خواب دیکھتے تھے ،انقلاب کی چاپ سنتے تھےاور رومان سے نموپاتے تھے ۔فیض انقلاب ورومان کا نقیب ہے ۔فیض کو راولپنڈی سازش کیس میں جیل بھی کاٹنی پڑی ۔جیل کی سلاخوں کے پیچھے انہوں نے اپنی شعری کتابوں ’’زنداں نامہ‘‘ ’’دست تہ سنگ‘‘ اور دست صبا کے اشعار لکھے جو زبان زد عام ہوئے ۔ان کی شہرہ آفاق کلام کو مہدی حسن نے پڑھا گلوں میں رنگ بڑھے اور ملکہ ترنم نور جہاں نے ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ کو اپنی آواز سے امر کیا۔ان کا شہرہ آفاق شعر بول کے لب آزاد ہیں تیرے ان کی انقلابی فکر کا علمبردار ہے ۔ پاکستان میں وہ امروزپاکستان ولیل ونہار کے مدیر رہے،درس و تدریس سے بھی وابسطہ ہوئے ۔ گو فیض احمد فیض اندھیروں میں روشنی کی طرح جگمگاتا رہے گا ۔ بات ہورہی تھی فیض فیسٹیول کی تیسر ے روزاس میں طارق ...