فیض انٹرنیشل فیسٹیول خوشگوار ہوا کا جھونکا

عتیق چوہدری 

فیض انٹرنیشنل فیسٹیول کا انعقاد الحمرا آرٹس سنٹر میں ہورہا ہے  ۔ خاکسار کو بھی اس فیسٹیول میں شرکت کرنےکا موقع ملا ۔  
فیسٹیول کا مقصد بیسویں صدی کے عہد ساز شاعر فیض احمد فیض کو خراج تحسین پیش کرنا ہے ۔فیض انقلاب اور سماجی انصاف کا استعارہ تھے ۔فیض امن کا خواب دیکھتے تھے ،انقلاب کی چاپ سنتے تھےاور رومان سے نموپاتے تھے ۔فیض انقلاب ورومان کا نقیب ہے ۔فیض کو راولپنڈی سازش کیس میں جیل بھی کاٹنی پڑی ۔جیل کی سلاخوں کے پیچھے انہوں نے اپنی شعری کتابوں ’’زنداں نامہ‘‘ ’’دست تہ سنگ‘‘ اور دست صبا کے اشعار لکھے جو زبان زد عام ہوئے ۔ان کی شہرہ آفاق کلام کو مہدی حسن نے پڑھا گلوں میں رنگ بڑھے اور ملکہ ترنم نور جہاں نے ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ کو اپنی آواز سے امر کیا۔ان کا شہرہ آفاق شعر بول کے لب آزاد ہیں تیرے ان کی انقلابی فکر کا علمبردار ہے ۔ پاکستان میں وہ امروزپاکستان ولیل ونہار کے مدیر رہے،درس و تدریس سے بھی وابسطہ ہوئے ۔گو فیض احمد فیض اندھیروں میں روشنی کی طرح جگمگاتا رہے گا ۔

بات ہورہی تھی فیض فیسٹیول کی تیسر ے روزاس میں طارق علی نے جنگ اور امن پر لیکچر دیا،سرمد کھوسٹ اورمیراہاشمی نے کہا تخلیق کی موت نہیں ہوتی بلکہ وہ صدیوں زندہ رہتی ہے ۔تھیٹر اور میوزیکل پرفارمنس پر بھی پینل ڈسکشن ہوئی ۔فلم کے بارے میں لکھنا کے موضوع پر میرا ہاشمی نے پرگیاتیواری اور بلال سمیع نے گفتگو کی ۔بائیں بازو کی سیاست اور مستقبل کے بارے میں طارق علی ،عابد حسن منٹواور عالیہ عامر علی خطاب کیا ۔ فیض احمد فیض کی کتابوں کے سٹال پر خریدنے والوں کا رش تھا۔ ہلکی ہلکی موسیقی کی آواز فسیٹیول کو چار چاند لگارہی تھی
۔مختلف طبقات زندگی کے لوگ اس ادبی میلہ میں بھرپور شرکت کررہے ہیں ۔موجودہ حالات میں اس طرح کی تقریبات کا انعقاد خوش گوار ہوا کا جھونکا ہے ۔اس سے نوجوان نسل کی فکری آبیاری ہوگی اور انہیں جدید ترقی پسند خیالات اور رجحانات کا علم ہوگا ۔انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسے جہنم سے ملک کو اس وقت ہی نجات مل سکتی ہے جب ہم اس کی فکری جڑیں کاٹیں گے ۔ 

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء