تعلیم برائے فروخت



عتیق چوہدری

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس میں معیاری تعلیم وتحقیق کو فروغ نہ دیا جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹنے والوں نے
کبھی اس بنیادی معاملے پر غورو فکر کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ۔سیاسی،سماجی،معاشی و معاشرتی زوال ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے مگر ہمارے پالیسی سازوں کی ترجیحات میں تعلیم کے فروغ نام کی کوئی ترجیح شامل نہیں ۔ جس کا اندازہ تعلیمی بجٹ سے کیا جاسکتا ہے جو کل بجٹ کا ۲فیصد بنتا ہے ۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل پچیس اے کے مطابق ہر شہری کو تعلیم کی سہولیات مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوگی ۔کسی بھی حکومت نے اس آئینی ذمہ داری کو صحیح معنوں میں پورا نہیں کیا ۔ پبلک سیکٹریونیورسٹیوں میں تحقیق کا معیار عالمی سطع کے تحقیقی کام کے معیار سے بہت پست ہے جس کی وجہ مناسب سہولیات کا فقدان ہے ۔ اسی وجہ سے ہماری کوئی بھی یونیورسٹی عالمی رینکینگ کی پہلی  یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہے ۔ اس میدان میں رہی سہی کسر پرائیویٹ یونیورسٹیز نے نکال دی جو طالب علموں سے لاکھوں روپے فیس وصول کرتے ہیں اور ڈگری اس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں ۔ اب تو پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں کرپشن کے قصے ،جعلی ڈگریوں کی کہانیاں زبان زد عام ہیں ۔

حکومت نے بہت سی یونیورسٹیوں کو اپنے سب کیمپسز بنانے کی بھی اجازت دیدی تھی ۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت مختلف پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے 17 کیمپسز پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چل رہے ہیں ۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ،سرگودھا یونیورسٹی ،گجرات یونیورسٹی کے مختلف شہروں میں کیمپسز قائم ہیں جن میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم ہیں جن سے لاکھوں روپے فیس کی مد میں وصول کئیے جاتے ہیں ۔ یہ کیمپس گذشتہ کئی سالوں سے مختلف پروگرامز میں ایم فل،ماسٹرز،بی ایس آنرز کروا رہے ہیں ۔پاکستان کے بڑے اخبارات میں دیوقامت اشتہارات کے ذریعہ ہزاروں طلبہ کو ایڈمیشن کی طرف راغب کیا جاتا رہا مگر حکومت یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن سمیت کسی بھی ادارے نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی ایف آئی سمیت کسی ادارے نے تحقیقات کی زحمت گواراہ کی ۔ اچانک ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو خیال آگیا کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کا لاہور کیمپس غیر قانونی ہے ہم اس کی ڈگری کی تصدیق نہیں کریں گے ۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے لاہور کیمپس میں چار ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔ ایم فل کی فی کس فیس تقریبا پونے تین لاکھ ہے ۔ یہ فیس کسی کی ماں نے زیور بیچ کے ،کسی کے باپ نے اپنا پیٹ کاٹ کے،کسی بھائی نے دہاڑی کرکے اپنی بہن کی فیس دی ہوگی مگر ان معصوم لوگوں پر اچانک اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب انہیں اخباری  خبر سے پتہ چلتا ہے کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی لاہور کیمپس کی ڈگری کو نہیں مانا جائے گا ۔ لاہور کیمپس کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ نے اس کیمپس کی منظوری دی اور حکومت پنجاب کے اجازت نامے کے بعد کیمپس میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا تھا ۔ سینڈیکیٹ کی منظوری کے بعد اس وقت کے وائس چانسلر خواجہ علقمہ نے کیمپس کھولنے کے اجازت نامے پر دستخط کئیے تھے اور طلبہ کو یونیورسٹی کی طرف سے رجسٹریشن کا رڈ بھی مل رہے تھے ۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور لاہور کیمپس انتظامیہ کی مشترکہ کمیٹی قائم تھی جو تعلیمی و دیگر امور کے متعلق اہم فیصلہ جات کرتی تھی۔ ملتان کے مین کیمپس کی ویب سائیٹ پر سب کیمپسز میں آج بھی لاہور سب کیمپس کا نام موجودہے ۔ مگر کچھ عرصے بعد یونیورسٹی کے انٹرنل ایشو ز ،بعض ذرائع کے مطابق کچھ پرائیویٹ تعلیمی ادارون کے مالکان (جن کے بزنس مفادات تعلیمی کاروبار سے وابسطہ ہیں ) کی ایما ء پر کہنا شروع ہوگے کہ کیمپس غیر قانونی ہے مگر طالب علموں کو حکومت ،ہائیر ایجوکیشن سمیت کسی بھی ادارے نے آگاہ نہیں کیا ۔ ابھی یہ بازگشت سنائی دے ہی رہی تھی کہ نیب نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر خواجہ علقمہ کو گرفتار کرلیا ۔جس طرح ایک محقق ،استاد ،پروفیسر کو گرفتار کیا گیا وہ بھی ہمارے معاشرے کے منہ پر نظام کا طمانچہ ہے ۔ نیب اور پولیس والے انہیں مجرموں کی طرح گھسیٹ کر لے کے گئے جبکہ ان پر صرف یہ الزام ہے کہ انہوں نے لاہور میں بطوروائس چانسلر کیمپس کھولنے کی اجازت دی ،یہ سراسر انتظامی معاملہ ہے اس میں کسی استاد کو جس کی ساری زندگی قوم کے نونہالان کی تعلیم وتربیت کرتے ہوئے گزری ہو بہت توہین آمیز ہے (واضع رہے جن پیسوں کی بات کی جارہی ہے وہ طلبہ کی فیسوں کے پیسے ہیں جو کیمپس انتطامیہ وصول کرتی رہی ہے وائس چانسلر کا ان پیسوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے )۔اس کے مقابل ماڈل ایان علی جس کے پرس سے پانچ لاکھ ڈالر برآمد ہوئے وہ اس ملک میں وی آئی پی پروٹوکول کے مزے لوٹ رہی ہے ۔جامعہ کراچی میں بطور مہمان خصوصی لیکچر دے رہی ہے ۔ لاہور کیمپس کی اجازت پنجاب حکومت نے ایک نجی کمپنی کو دی اس نے اس کیمپس کو اگلی پارٹی کو فروخت کردیا ۔ اس کمپنی نے یہ کیمپس موجودہ چئیرمین لاہور کیمپس منیر بھٹی کو فروخت کردیا ۔منیر بھٹی اس کیمپس کو گذشتہ دو سالوں سے چلارہے تھے ۔باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو بھاری رقم رشوت کی مد میں بھی ادا کی گئی ۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب بھی کروڑوں روپے رشوت مانگی گئی تھی جب رشوت کی رقم کیمپس انتظامیہ نے دینے سے انکار کیا تو یہ مسئلہ کھڑ اکردیا گیا ۔ مگر ان تمام قانونی موشگافیوں میں ہزاروں طلبہ کا کیا قصور ہے جن کے مستقبل سے کھیلا جارہا ہے انہوں نے اپناقیمتی وقت ضائع کیا اور بھاری فیسز بھی دیں ۔ اگر کوئی قانونی مسئلہ تھا تو حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اشتہار کے زریعہ اس کا اعلان کیوں نہیں کیا ۔ اگر میٹروبس،نندی پورپاور پراجیکٹ،قائداعظم سولر پراجیکٹ،اورنج ٹرین ،موٹروے،وزیراعظم ووزیراعلی کی ذاتی پرومشن کے اشتہار اربوں روپے کے فنڈ ز سے قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر چل سکتے ہیں تو اس اہم مسئلہ پر اشتہار کیوں نہیں دیا گیا ۔ اس کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے ؟ حکومتی اداروں اس وقت کہاں سوئے ہوئے تھے جب یہ سب کچھ ہورہا تھا؟ ہزاروں طلبہ کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ کیا ان طلبہ کو ان کی ڈگریاں ملیں گی ؟ کیا حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر اس طرح کیمپس بند کیا گیا تو تنگ آمند بجنگ آمند ہزاروں طلبہ مجبورا سڑکوں پر ہونگے ۔ حکومت وقت کو اس وقت سے پہلے جب ہزاروں طلبہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں اور باقی یونیورسٹیوں میں کلاسز کا بائیکاٹ ہو ،طلبہ وزیراعلی اور وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ کریں حکومت کو اس اہم مسئلہ کو فورا حل کرنا ہوگا ۔قانونی مسائل جیسے بھی حل ہو مگر طلبہ کو ان کی متعلقہ ڈگری بروقت ملنی چاہئیے ان کی تعلیمی سال اور پیسہ بلکل ضائع نہیں ہونا چاہئیے ۔ وزیراعظم کے صرف اخباری بیان کے ذریعے نوٹس لینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا ذاتی دلچسپی بہت ضروری ہے ۔ غریب طالبعلموں کو اس بات کا ادراک ہے کہ وہ حمزہ شہباز ،مریم نواز،آصف زرداری ،عمران خان ،چوہدری نثار،اسحاق ڈار سمیت دیگر قائدین اور اشرافیہ کے بچون کی طرح باہر کے ممالک میں جا کر تعلیم حاصل نہیں کرسکتے مگر انہیں اس ملک میں تو ڈگریاں لینے کا حق مت چھینو ۔ حکمرانوں اور دو فیصد اشرافیہ کی ترجیحات میں عوام کے بنیادی مسائل تعلیم ،صحت،روٹی ،کپڑا ،مکان،روزگارشامل نہیں ہیں کیونکہ ان کے بچے تو یورپ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں باقی عوام جائیں بھاڑ میں ۔ اپنی ذاتی تشہیر کے لئے لیپ ٹاپ ،قرضے بانٹ کے قوم کے نوجوانوں کی خودداری کو ختم کیا جارہا ہے ۔ بجائے اس کہ ان کی کرئیر کونسلنگ کی جاتی ،ایسی سہولیات دی جاتیں کہ وہ اپناروزگار کماکر خود لیپ ٹاپ خریدنے کے قابل ہوجاتے ۔سکولوں ،کالجوں کی کسمپرسی کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پنجاب کے دیہات میں ہزاروں سکول آج بھی ایسے ہیں جن میں چاردیواری،واش روم ،پینے کا پانی،فرنیچر ،بجلی ودیگر سہولیات نہیں ہیں ۔ہزاروں کالجوں ،سکولوں میں استاد ہی نہیں ہے ۔ معیار تعلیم انتہائی ناقص ہے جبکہ دوسری طرف پرائیویٹ سکول ہزاروں میں بھاری فیس وصول کرتے ہیں جو غریب ،متوسط طبقے کے لئے افورڈ کرنا مشکل ہے ۔ دوہرا نظام تعلیم ختم کرنے کے لئے سنجیدہ سوچا ہی نہیں گیا ۔ اکیڈمی مافیا بھی قبضہ مافیا ،سیاسی اشرافیہ ،بیوروکریسی مافیا،کرپٹ مافیاز کی طرح ایک بڑا مافیا بن چکا ہے ۔مگر حکومت نے کوئی مناسب قانون سازی نہیں کی اگرچہ پرائیویٹ سکولز کی رجسٹریشن کا قانون موجودہے مگر اس پر بھی عملدرآمد سیاسی مصلحتوں کی بنا پر نہیں ہوتا ۔ حکمرانوں کو اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے تعلیمی نظام میں ہنگامی بنیادوں پر تبدیلیاں کرنا ہونگی  ،تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہو گا

  بقول شاعر وگرنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں  

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء