کیا اردگان ترکی کونیا آئین اور نظام دے پائیں گے ؟؟
عتیق چوہدری
تر کی کے دوبارہ ہونے والے انتخابات میں طیب اردگان کی " آق پارٹی 'جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے دوبارہ تن تنہا حکومت سازی کے لئے سادہ اکثریت حاصل کرلی ہے ۔13 سال کے تسلسل کے بعداردگان کو دوبارہ چار سال کے لئے بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کا اختیار عوام نے دے دیا ہے۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آق پارٹی عوام سے کئیے ہوئے وعدے پورے کر پائے گی ۔اس سوال کو تفصیلی طور پر ڈسکس کرنے سے پہلے اسمبلی میں نشستوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔طیب اردگان کی پارٹی نے 49 فیصد ووٹوں کے ساتھ 316 ،جبکہ حکومت سازی کے لئے 276 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دوسرے نمبر پر آنے والی کمال اتاترک کی وارث سیکولر ،جمہوری پیپلزپارٹی نے 25 فیصد ووٹوں کے ساتھ 134 نشستیں حاصل کی ہیں ۔جبکہ قومی تحریک 12 فیصد کے ساتھ 40 اور کرد عوامی جمہوری پارٹی 11 فیصد ووٹوں کے ساتھ 59 نشستیں حاصل کرکے بالترتیب چوتھے اور تیسرے نمبر پر رہی ہیں ۔ عوام نے رجب طیب اردگان کو مینڈیٹ تو دے دیا ہے مگر وہ اپنے منشور میں کیا گیا سب سے بڑاوعدہ صدارتی نظام حکومت ترکی میں رائج کر سکیں گے ؟کیونکہ آق پارٹی کو ریفرینڈم کروانے کے لئے 330 پارلیمانی تعدادکی ضرورت ہے جبکہ آئین میں تبدیلی کے لئے اسے 367نشستوں کی تعداد درکار ہوگی ۔یادرہے کہ جون میں ہونے والے انتخابات میں پارلیمان کے اندر کوئی بھی پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی ۔آق پارٹی کو 258 نشستیں ،سیکولر جمہوری پیپلزپارٹی کو 132 ،قومی تحریک کو80 ،عوامی جمہوری پارٹی 80 نشستیں حاصل کر سکی تھیں ۔طویل جوڑ توڑ اور مک مکا کرکے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کی کوشش میں کسی بھی اتحاد کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ ان مذاکرات میں آق پارٹی اور جمہوری پیپلزپارٹی کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے جس کے ایجنڈے میں صدارتی نظام ،مذہبی آزادیاں اوراردگان کی معاشی پالیسیاں سرفہرست تھے۔ آق پارٹی صدارتی نظام پر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی ۔ جس کی وجہ سے یہ مذاکرات ناکام ہوئے تھے اور حکومت نے دوبارہ الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ۔ اس دوران حکومت کی بہترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے ترکی کو یورپی یونین کے قریب ہونے کا موقع ملا ۔ شامی مہاجرین والے معاملے پر اردگان کی پالیسی کو پوری دنیا میں سراہا گیا ۔ اردگان نے ترکی کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے مگر اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے منشور میں کئیے گے وعدے پورے کریں جن میں نیا نظام ،صدارتی نظام حکومت ،شفاف انتخابی نظام وغیرہ اہم ہیں ۔ انتخابی منشور کے وعدوں پر عملدرآمد کا یقین رجب طیب اردگان کے نائب احمد داؤد اوغلو نے بھی دلایا ہے ان کا کہنا تھا' ہماری ترجیح ہوگی کہ ترکی کو ایک نیا نظام اور نیا آئین دیں کیونکہ حالات بدل چکے ہیں اور پرانا آئین اس میں نہیں بیٹھ رہا ،موجودہ پرانا نظام اور آئین فوج نے 80 کے عشرے میں فوجی حکومت نے بنایا تھا جس میں حالات کے مطابق تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ۔ ہم ایسا نظام دیں گے جس میں بیوروکریسی سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہ کرسکے "
اگر طیب اردگان کی جماعت نے عوام سے کئیے ہوئے وعدے ایفا نہ کئے تو اس کا حال بھی مصطفی کمال اتاترک کی پارٹی جیسا ہی ہو گا کیونکہ عوام اب وعدے نہیں عمل دیکھتے ہیں ۔
Comments
Post a Comment