اقبال کے دیس میں بندہ مزدور کی کسمپرسی کا عالم


 عتیق چوہدری 
آج قوم شاعر مشرق ،مصور پاکستان کا ۱۳۸ واں یوم ولادت منا رہی ہے
 ۔پوری قوم گذشتہ ایک ہفتہ سے اس کشمکش میں مبتلا تھی کہ9 نومبر کو چھٹی ہونی چاہیئے یا نہیں ۔چہ جائیکہ اس پر بحث ہوکہ آج فکر اقبال کو نئی نسل تک کیسے پہنچایا جاسکتاہے اور اس پر عمل کیسے ہو سکتا ہے ؟ ہم پاکستان کو فکر اقبال اور قائداعظم کے فرمودات کی رہنمائی میں ایک ترقی یافتہ جدید،جمہوری فلاحی ریاست کیسے بناسکتےہیں ؟علامہ محمد اقبال کی تعلیمات پر نظر ڈالی جائے تو آپ غریب عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں ۔آپ ہر قسم کی غلامی کے خلاف ہیں ،آپ خودی اور نوجوانوں کو ستاروں پر کمند ڈالنے کا درس دیتے ہیں ۔ مگر آج میں جس پہلو پراپنے خیالات قلم بند کرنا چاہتا ہو وہ  ملک کی معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھنے والا بندہ مزدور
آج کا مزدور جس بے حسی اور مجبوری میں جکڑا ہوا ہے اس کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ہزاروں مزدورآپ کو سڑکوں ،چوراہوں پر دیہاڑی کی آس میں کھڑے نظر آئیں گے ۔لاکھوں مزدور،جاگیرداروں،وڈیروں،سرداروں،زمینداروں کی غلامی ،مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔اس کے علاوہ لاکھوں لوگ صعنتی آقائوں کے غلام ہیں جو ان کا جیسے چاہتے ہیں استحصال کرتے ہیں ۔ حکومت کے تمام ادارے مزدوروں کے مسائل کو حل کرنا تو درکنار زیر بحث لانا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان مزدوروں کی نوکری کے اوقات مقررنہیں ہیں ،ڈبل شفٹوں میں کام لیا جاتا ہے ،انہیں ہفتہ وار چھٹی تنخواہ کے ساتھ ملنے کی کوئی سہولت نہیں ہے ،سوشل سیکیورٹی ،صحت وبچوں کی تعلیم کی سہولیات تو درکنار فیکٹریوں کے اندر فرسٹ ایڈ کی سہولت بھی میسر نہیں ہے ۔ نوکری کی کوئی گارنٹی نہیں جب سیٹھ کا دل کرے بچارے مزدور کو ٹھڈے مار کے نکال دے کوئی پوچھنے والا نہین ۔ اگر کسی بدقسمت نے مالک کے سامنے جرات اظہار کا مظاہرہ کرتے ہوئی کوئی تجویز دے دی یا اس کی رائے کے خلاف بات کردی تو آپ کے اس کمپنی ،ادارے میں آخری دن ہے ۔  مصور پاکستان علامہ اقبال نے مزدوروں کی حالت زار اور کسمپرسی دیکھ کر رب کائنات سے شکوہ کیا تھا۔
تو قادر و مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ¿ مزدور کے اوقات
علامہ اقبال فلسفی تھے انہوں نے مسلم سماج کا بڑی گہرائی سے مطالعہ اور تجزیہ کررکھا تھا۔ انہوں نے مزدوروں کی خستہ حالی کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات ؎
قائداعظم نےبھی  واشگاف الفاظ میں کہا کہ ”ہم نے پاکستان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے حاصل کیا ہے“ مگر افسوس قیام پاکستان کے بعد مکار اور عیار اشرافیہ ریاست پر قابض ہوگئی۔ اس نے مزدور، کسان اور محنت کش افراد کا استحصال شروع کردیا جو آج تک جاری ہے۔اشرافیہ اور ظالمانہ نظام کی وجہ سے دو فیصد اشرافیہ سیاست،دولت ،اقتدار سمیت ہر چیز پر قابض ہے ۔مگر جس مقصد کے لئے یہ وطن حاصل کیا گیا تھا اس جمہوری ،فلاحی ریاست کے تصور کو عملی طور پر دفنا دیا گیا ہے ۔گزشتہ دنوں لاہورمیں فیکٹری گرنے سے درجنوں مزدور اپنی جان سے ہاتھ دو بیٹھے ،کراچی میں فیکٹری میں بتھہ نہ دینے پر سینکڑوں مزدورں کو زندہ جلا دیا گیا تھا مگر کسی کے کان پر جو ں تک نہ رینگی ۔ یہ کیسا ملک اور اندھیر نگری ہے جہاں پر جب بھی کوئی آفت آتی ہے مزدور ہی اس کا شکار ہوتا ہے ۔ اس ملک میں جنگل کا راج ہے جن کی ذمہ داری ہے ان مسائل کو حل کرنا وہ مسئلہ درپیش آنے کے بعد میڈیا کوریج اور فوٹو شوٹ کے وہاں پہنچ جاتے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی اندرونی لڑائیوں سے فرست ہی نہیں کہ وہ مزدوروں کی بات کر سکیں ۔رہ گئی میڈیا کی بات جس کو ریحام خان اور عمران خان کے کتوں کی بریکنگ نیوز چلانے کے علاوہ ملک کے اہم مسائل سے غرض نہیں ہے ۔ میڈیا مالکان جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے چمپئین بنتے ہیں ان کے اپنے اداروں میں غریب مزدور صحافی کارکن کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں ۔بعض اوقات تو نوبت گھروں میں  فاقوں تک چلی جاتی ہے کیونکہ اخبار یا چینل کے دفتر سے تین ،چار ماہ تک تنخواہ نہ ملنا معمول کی بات ہے ۔ جو تنخواہ ملتی ہے وہ اتنی کم ہوتی ہے کہ گھر کا چولہا چلانا نامکمن ہوتا ہے ۔بچوں کی تعلیم ،بیمار ہوجائیں تو دوائی کے لئے قرض لینا پڑتا ہے ۔حالات کی ان ستم ضریفیوں کے باوجود عام صحافی اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے در در کے دھکے کھاتا ہے مگر زبان پر شکوہ وشکایت نہیں لاتا ۔اگر کبھی زبان پر شکوہ و شکایات زبان پر آگئی تو وہ اس اخبار یا چینل میں اس کا آخری دن ہوگا ۔

 نے مزدوروں سے کہا تھا کہ انہی حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے اقبال
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمرا¿ کے در و دیوار ہلا دو
گرماو¿ غریبوں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشکِ فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسّر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ¿ گندم کو جلا دو
کاش کہ مزدور اپنی معاشرتی اہمیّت اور حیثیّت کو سمجھ جائے تو اس کرہ ارضی کی تقدیر بدل جائے گی - لیکن ایک بات (معذرت سے) کہنا چاہوں گا کہ مزدور کسی بھی سیاسی جماعت کے لیبر ونگ یا نام نہاد این جی اوزکے جھانسے میں نہ آئیں کیونکہ لیبر ونگ کے عہدہ داران خود تو لگژری دفاتر کے مزے لوٹتے ہیں اور مزدور کا خون بیچ کر کمائی خود کھاتے ہیں
مزدور یہ بھی یاد رکھیں کہ ان کی اٹھائی گئی ہر آواز کو ملکی اشرافیہ بغاوت کا نام دے کر دبا دیتی ہے اور تبھی نہ مزدور بدل سکا نہ اس کی حالت اور نہ ہی یہ ملک - وقت آگیا ہے کہ مزدور اقبال کی فکر کا دامن تھامیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پستے ہوئے اپنے حقوق کے دفاع کی جنگ لڑیں اقبال کی فکر کا پرچم تھامیں اور وڈیرہ شاہی و جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے اکھیڑ پھینکیں - اقبال بڑی امید سے یہ کہتا ہے :
من بہ سیمائے غلاماں فرِّ سُلطاں دیدہ اَم
شُعلہ¿ محمود از خاکِ ایاز آید بروں
کہ میں نے غلاموں کی پیشانی میں بادشاہوں کی شان و شوکت دیکھ لی ہے وہ وقت قریب آگیا ہے کہ اب غلاموں کی خاکِ بدن سے بادشاہی کا شُعلہ باہر نکلے گا۔
نہیں ہے ناامیداقبال اپنی کشتِ ویران سے
ذرا نم ہو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

  

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء