بہار الیکشن کے نتائج ،بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں ایشیا کے سیاستدانوں کے لئے سبق


 
عتیق چوہدری 
بھارت کی ریاست بہار کے الیکشن نتائج نے اس بیانیہ پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے کہ جنوبی ایشیا کی عوام میں سیاسی شعور اور آگاہی وقت گزرنے کے ساتھ آرہی ہے ۔بہت سارے مقامی عوامل کے ساتھ لوگ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی پالیسیاں ،منشور اور عمل کو دیکھ کر بھی ووٹ دیتے ہیں ۔ عام ووٹر بھی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بناتا ہے بلکہ ووٹ کی طاقت استعمال کرتے ہوئے سیاستدانوں کے قو ل وفعل کو مدنظر دیتے ہوئے ووٹ دیتا ہے ۔بطور صحافت اور سیاست کا طالبعلم ہونے کے ناطے میرے لئے یہ خوش آئیند بات ہے کہ جمہوریت مظبوط ہورہی ہے ۔میڈیا،جدید ٹیکنالوجی،سوشل میڈیا نے عوام کو
سیاسی اور سماجی شعور دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ 
بہار کے الیکشن نتائج کا اگر تجزیہ کریں تو ان نتائج سے بھارت ،پاکستان،افغانستان،بنگلہ دیش کے سیاستدانوں کے لئے بہت سے سبق چھپے ہوئے جن کو دیکھتے ہوئے انہیں اپنے ماضی کا احتساب کرنا ہوگا اور مستقبل کے لئے پالیسیوں کا ازسر نو تعین کرنا ہوگا ۔ بہار کے ا لیکشن میں حکمران جماعت بھارتیہ جتنہ پارٹی جس کو اٹھارہ ماہ پہلے بھارت کی عوام نے کانگریس کے مقابلے میں واضع اکثریت دے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا تھا ۔ مگر نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد اس کی انتہا پسند پالیسیوں ،اقلیتوں کے ساتھ نامناسب سلوک،پاکستان کے خلاف انتہائی سخت موقف،پاکستان کے خلاف جنگ والا ماحول سمیت بہت سی پالیسیوں کو عوام نے سخت ناپسند کیا ۔ بی جے پی کو پہلے دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں عبرت ناک شکست ہوئی تھی اور لوگوں نے اروند کجیروال کو عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے وعدے پر حکومت کرنے کا موقع دیا ۔ بہار کے الیکشن میں بی جے پی کا مقابلہ (جنتا دل ) اتحاد گرینڈٖالائینس سے تھا ۔ وزیراعظم مودی نے تیس سے زائد انتخابی جلسوں سے خطاب کیا ۔ الیکشن دن کے موقع پر ہر حلقے میں کروڑوں روپے خرچ کرکے ووٹرز کو لانے کا بھی انتظام کیا گیاتھا مگر عوام نے مودی کی پالیسیوں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے گرینڈ الائینس کو الیکشن میں زیادہ ووٹ دئیے ۔ 243 نشستوں میں بی جے پی صرف 58 نشستیں ،جبکہ گرینڈ الائینس کو 178 نشستیں ملی ہیں ۔ انتخابات میں مجموعی طور پر ٹرن اوور 56.9% رہا ہے ۔ اس کامیابی میں گرینڈ الائینس کے تین اہم رہنماؤں لالو پرشاد یادو،نتیش کمار،راہول گاندھی نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔ بہار کے انتخابات میں جیتنے والے امیدواروں کی تعلیمی قابلیت کا جائزہ لیں تو مجموعی طور پر لوگوں نے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو ووٹ دیا ہے ۔جیتنے والے امیدواروں میں 14 PHD،38 ایم فل ،86 گریجوایٹ،52 انٹر ،53 
امیدواروں کی تعلیم انٹرمیڈیٹ سے کم ہے ۔ 
بھارت جو سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے اور عورتوں کی آزادی اور ترقی کے بھاشن دیتا نہیں تھکتا وہاں صرف 27 خواتین الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچی ہیں 216 مرد امیدوار جیت کر اسمبلی کا حصہ بنے ہیں ۔ 
اگر الیکشن میں ووٹرز کے رجحان کا تجزیہ کیا جائے تو اس نے مذہبی انتہا پسندی،جنگ،لڑائی جھگڑا،فساد،گائے ذبح کا رڈسمیت مودی کے تمام کارڈز کو مسترد کردیا ہے ۔ مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کو ملک کے عوام سمیت دانشور ،اداکار،تجزیہ نگار،تعلیمی ماہرین،خارجہ امور کے ماہر بھی شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ بہت سی اہم شخصیات نے قومی اعزازات حکومت کو واپس کرکے سخت پیغام دیا ہے ۔ مودی کو دورہ کشمیر کے موقع پر بھی سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ مودی کے برطانیہ کے دورہ سے پہلے ہی مودی کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر بینرز لگا دئیے گے ہیں ۔جن پر مودی کے خلاف نعرے لکھے

ہوئے ہیں ۔ 
مگر لگتا ہے بھارتیہ جتنا پارٹی اپنا احتساب کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ،ان کے اپنے رہنما شتروگھن سنہا نے اپنی جماعت کو احتساب اور عاجزی کا مشورہ دیا تو بی جے پی کے رہنما کیلاش وجے ورگیا نے شتروگھن سنہاکو کتے سے تشبیہ دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔اس جیت پر لالو پرشاد نے عوام سے وعدے پورے کرنے کا یقین دلایا ہے ۔راہول گاندھی نے اس جیت کو نفرت کے مقابلے میں محبت کی جیت ،بٹوارے کے
مقابلے میں اتفاق اور انتہاپسندی کے مقابلے میں سیکوالرزم کی فتح قرار دیا ہے ۔ 
بہار کے نتائج کا مستقبل پر گہرے اثرات ہونگے ،نتائج آنے کے فورا بعد بھارتی معیشت بھی ہل گئی ہے ۔ڈالر کے مقابلے میں انڈین روپے کی قدر کم ہوگئی ہے۔اپوزیشن نے بھی مودی کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔لالو پرساد نے تو ملک گیر تحریک چلانے کا بھی اعلان کردیا ہے ۔ اب مودی کو ایوان بالا راجیہ سبھا میں بل پاس کروانے میں بھی مشکلات آئیں گی بہت سے سیاسی امور کے ماہر اس شکست کو فرقہ پرست اور فاشسٹ سیاست کو شکست قرار دے رہے ہیں ان ماہرین کے خیال میں عوام انتہا پسندانہ پالیسیوں سے بیزار ہوچکے ہیں ۔ بی جے پی اور مودی کو شکست کے اسبا ب کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا احتساب خود کرنا چاہئیے ۔آر ایس ایس اور شیوسینا جیسی تنظیموں کی سرپرستی چھوڑ کر تمام اقلیتوں کو تحفظ دینا چاہئیے ۔ ان انتخابات میں جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے رہنماوٗں کے لئے بھی سبق آموزپہلوہیں۔ اب عوام میں میڈیااور سوشل میڈیا کے انقلاب کی وجہ سے سیاسی اور سماجی شعور کافی زیادہ آگیا ہے ۔ اب لوگ روایتی جاگیرداروں ،قبائل کے سرداروں ،وڈیروں ،برادری،غنڈہ گردی کی طاقت سے زیادہ پارٹی کی پالیسیوں اور سیاستدانوں کے قول وفعل کو بھی مدنظر رکھتے ہیں ۔ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں عوام معاشی ترقی اور سماج کی فلاح چاہتے ہیں ۔ لوگ جنگ وجدل ،دنگا فساد اور مذہبی انتہا پسندی کو اب بلکل پسند نہیں کرتے ۔ بلخصوص پاکستا ن کی عوام تو بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر اچھے تعلقات چاہتے ہیں ۔دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں اس لئے دونوں ممالک کو کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل مذاکرات سے حل کرنے چاہئیے۔ مودی کو بھی اپنی سخت پالیسی ترک کرکے پاکستان کے ساتھ فورا مذاکرات کا آغا ز کرنا چاہئیے تاکہ دونوں ممالک دفاع پر خرچ ہونے والا بجٹ غریب عوام کی تعلیم ،صحت،بنیادی ضروریات زندگی اور سماجی و معاشی ترقی پر خرچ کرسکیں ۔ مودی کو اپنی داخلہ پالیسی کا بھی ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا اور تمام اقلیتوں کے حقوق کا خیال کرنا پڑے گا ۔ بھارت اگر سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے تو اسے عملی طور پر بھی ثابت کرنا ہوگا ،مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے لوگوں کو ان کے مذہب کے مطابق مکمل آزادی دینی پڑے گی ۔ اگر ہم علاقائی اور عالمی امن کے اعتبار سے دیکھیں تو افغانستان کو بھی ہمسایہ ممالک کے اوپر الزامات لگانے کی بجائے تمام سٹیک ہولڈرز کواعتماد میں لے کر داخلہ اور خارجہ پالیسی کو سب کے لئے قابل قبول بنانا ہوگا ۔ یہی سبق بنگلہ دیش کی قیادت کو بھی سمجھنا چاہئیے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کو بھول کر آگے بڑھنا چاہئیے۔اپنی عوام کی معاشی وسماجی ترقی کو پہلی ترجیح بنانا ہوگا ۔ امید ہے کہ تمام ممالک کے سیاستدان بہار کے الیکشن نتائج سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی ترجیحات اور پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لیں گے ۔

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء