دور نو کا تقاضا،خارجہ پالیسی کی از سرنو تشکیل



عتیق چوہدری 
وطن عزیز کا جغرافیائی محل وقوع پاکستان کو دنیا کی اہم طاقتوں کی نظر میں اہم بناتاہے ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستون ملکی سالمیت اور اقتصادی ترقی ہے۔کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ ہر ریاست اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے دشمنوں اور دوستوں کا تعین کرتی ہے ۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان غیر جانبداریت کی پالیسی کے قائل تھے مگر ان کا جھکاؤ مغربی بلاک کی طرف زیادہ تھا ۔ سٹالن نے 1948 میں لیاقت علی خان کو روس کے دورے کی دعوت دی مگر پاکستان نے وہ قبول نہیں کی ۔خارجہ پالیسی کے ماہرین اس کو خارجہ پالیسی کی بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہیں ۔ سرد جنگ کے دور میں بھی پاکستان امریکن بلاک کو سپورٹ کرتا رہا مگر امریکہ نے 1965 ،1971 میں پاکستان کو ایک اتحادی کے طور پرمکمل سپورٹ نہیں کیا ۔سرد جنگ کے دوران پاکستان کے ساتھ روس کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ افغان جہاد کے بعد تو روس پاکستان کو دشمن ہی سمجھنے لگ گیا تھا ۔ 9/11 کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
امریکہ کا صف اول کا اتحادی بن گیا ۔ دہشت
گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑااور ساٹھ ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے  بدلتی ہوئی خطے اور عالمی صورتحال میں پاکستان نے چین اور روس کی طر ف دوستی کا ہاتھ بڑھانا شروع کیا ہے ۔چین تو شروع سے پاکستان کا بہت اچھا دوست ہے ہرمشکل وقت میں چین نے پاکستان کی ہر ممکن مدد کی ہے مگر روس کے ساتھ معاملہ مختلف رہا ہے ۔ پچھلی دہائی میں عالمی سطع پر بہت ساری اہم تبدیلیاں آئی ہیں جن میں مشرق وسطی کے ممالک مصر،شام،لیبیا،تیونس کی اندرونی صورتحال میں عالمی طاقتوں کی اپنے مفادات کی خاطر مداخلت سرفہرست ہے ۔ اس کے علاوہ ایران میں حسن روحانی کی حکومت آنے کے بعد امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے ایک معاہدہ بھی طے پایا ہے ۔ ایران نے بدلتے ہوئی عالمی صورتحال کو سمجھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا ہے ۔ یمن جنگ سے بھی عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ڈپلومیسی اختیار کی ۔ پاکستان نے سعودی عرب کے بہت زیادہ پریشر کے باوجود اپنی فوج یمن میں نہیں بھیجی ۔پاکستان کواس وقت داخلی اورخارجی سطع کے محاذ پر بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔سب سے بڑا چیلنج اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے ۔ پاک فوج اس وقت آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہے مگر سب سے بڑامسئلہ طالبان کے افغان طالبان سے روابط ہیں ۔بہت سے شدت پسند افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں کاروائیاں کررہے ہیں ۔پاک افغان سرحد بھی ایک بہت بڑاسیکیورٹی چیلنج ہے
۔جب سے اشرف غنی کی حکومت آئی ہے افغانستان پاکستان پر مختلف الزامات لگا دیتا ہے ۔امریکہ افغانستان میں طے شدہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے ۔اب وہ اپنی افواج کو نکالنے سے پہلے یہاں پر اپنی مظبوط گرفت رکھنے کا خواہاں ہے ۔ پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں ۔لائین آف کنٹرول کی روز بروز خلاف ورزی بھارتی فوج کا معمول بن چکی ہے ۔ اسی طرح بھارت اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت عالمی سطع پر پاکستان کو بدنام کر رہا ہے ۔ پاکستان کو عالمی سطع پر اس وقت مضبوط سفارت کاری کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی مستقل وزیر خارجہ ہی نہیں ہے ۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس وقت سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئیے تاکہ ازسرنو خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے ۔ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے ۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور اس کو حتمی شکل دی جائے ۔ لارڈ پامرسٹن کے بقول ’’بین لاقوامی تعلقات میں نہ تو کوئی دوست مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمن مستقل دشمن ‘‘
لہذاپاکستان کو بھی اسی اصول کو اپناتے ہوئے روس ،چین کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئیے ۔ پاک چین اکنامک کوریڈرو سے پاکستان کی معیشت بہت مظبوط ہوگی ۔چین تونائی سمیت بہت سے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی مدد کر رہا ہے ۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ روس بھی پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے ۔جس کی مثال وسط اکتوبر میں پاکستان اور روس کے درمیان طے پانے والا توانائی کا معاہدہ ہے ۔ اس معاہدے کے تحت روس کی سرکاری کمپنی ،آرٹی گلوبل ریسورسزکراچی تا لاہور 1100 کلومیٹر طویل پائپ لائین تعمیر کرے گی ۔یہ معاہدہ پاکستان کے لئے بہت سود مند ثابت ہوگا۔ بہت سے معاشی مفادات نے چین کو روس کے قریب کردیا ہے ایک اندازے کے مطابق پچھلے ایک برس میں روس اور چین میں اربوں ڈالر کے مختلف معاہدے ہوچکے ہیں ۔
چین اور روس کی یہ بھی تمنا ہے کہ دنیا پر مغرب کی اجارہ داری ختم کی جائے ۔اس کی مثال شام میں صدر پیوٹن کا شام میں فوج بھیجنا ہے جس کا مقصد امریکہ کو باور کروانا ہے کہ روس اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہے ۔دوسرا مقصد عالمی سطع پر اپنے وجود کا دوبارہ احسا س دلانا ہے ۔ براعظم ایشیا میں پاکستان چین کا بہت اچھا دوست ہے ۔پاکستان چین کو استعمال کرتے ہوئے روس کے قریب جا سکتا ہے ۔ اپنی جغرافیائی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو تمام عالمی طاقتوں سے مفادات نکلوانے کی پلاننگ کرنی چاہئیے تاکہ پاکستان اپنی سالمیت کے تحفظ کے ساتھ معاشی طور پر بھی مضبوط ہوسکے ۔ مضبوط پالیسیاں تشکیل دینے کے لئے جرات مند ،قابل ،دور اندیش قیادت کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے پاکستان کو دوراندیش ،مخلص،ایماندار قیادت آج تک نہیں مل سکی ۔ سول اور عسکری قیادت کا ایک صفحہ پر نہ ہونا بھی ایک اہم مسئلہ ہے اس وقت سول اور عسکری قیادت کو ایک صفحہ پر ہوتے ہوئے کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کا موقف سننا چاہئیے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر آزاد ،جرات مندخارجہ پالیسی کوازسرنو تشکیل دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بھارت کے ساتھ برابر ی کی بنا پر مذاکرات کی جامع پالیسی،سارک ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات ،مشرق وسطی کے ساتھ معاملات ،بردارار اسلامی ممالک ،ہمسایہ ممالک افغانستان ،ایران اور امریکہ کے ساتھ
تعلقات کو بہت وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔وقت بدلنے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی ترجیحات کو بھی بدلنا ہوگا یہی وقت کا تقاضا ہے ۔

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء