گڈگورننس یا فوجی گورننس ؟
عتیق چوہدری
کسی بھی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ جمہوری حکومتوں میں عوام کے حق اقتدار کی ترجمانی پارلیمنٹ میں ہی ہوتی ہے ۔پارلیمنٹ اور انتظامیہ عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں کسی اور کونہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی کہ شروع سے کسی نظام ،آئین کو چلنے نہیں دیا گیا ۔ یہ روایت 1948 سے شروع ہوئی اور اقتدار حاصل کرنے کی رسہ کشی اب تک جاری ہے ۔ 1958 کا مارشل لا ہو یا 1969 ،1977 کا مارشل لا ء یا پرویز مشرف کا نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر خود کو چیف ایگزیکٹیو ڈکلیر کردینا ہو۔ سب فوجی آمروں نے اس کی بنیاد ملک میں امن وامان کی خراب صورتحال،معاشی بدحالی
،بیڈگورننس،سیاستدانوں کی نااہلی اور کرپشن کو قرار دیا ۔ اس صورتحال کا اصل سبب ملک میں جمہوری روایات اور سیاسی اداروں کا قحط تھا۔ دوسری طرف سیاسی عمل بار بار ٹوٹنے اور خلا پیدا ہونے سے فائدہ اٹھا کر سرکاری ملازمین سیاست میں دخل اندازی کرتے رہے ۔اس سے صحیح سیاسی قیادت کو ابھرنے کا موقع نہیں مل سکا ۔ پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کا بہت رونا رویا گیا ۔ جس کی ایک جھلک آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلز جاری ہونے کے بعداسٹیبلیشمنٹ کی گود میں جنم لینے والے تجزیہ کاروں کے تجزیوں سے نظرآئی ۔پریس ریلیزمیں حکومت کی گورننس کوہدف تنقید بنانے کے ساتھ آپریشن ضرب عضب ،فاٹا اصلاحات ،نیکٹا کافعال کردار،نیشنل ایکشن پلان کے بہت سے اہم نکات پر عملدرآمد نہ ہونے ،جے آئی ٹیز کا غیر فعال کردار سمیت دیگر ایشوزپرکور کمانڈرز کانفرنس میں تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ان نام نہاد تجزیہ نگاروں کے بقول جمہوریت ہمارے عمومی مزاج کے خلاف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا دائرکار صرف طرز حکومت تک محدود نہیں ہے ۔جمہوریت کسی بھی ملک کو چلانے کے لئے مساوات،احتساب،انصاف ،آزادی،شفاف انتخابات،اقتدار کی حقیقی معنوں میں عوام کو منتقلی اور جواب دہی جیسے بنیادی اصول وضع کرتی ہے ۔مگر بدقسمتی سے پاکستان کو ایسی مخلص ،محب وطن ،دوراندیش،بے لوث اور جرات مند قیادت نصیب نہیں ہوسکی جوملک کو درپیش چیلنجز کا صحیح معنوں میں تجزیہ کرتی اور ان کے حل کے لئے لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پلان پلان تیار کرتی۔سب سیاسی قائدین نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جوڑ توڑ کئے ،مصلحت اندیشی اور خودغرضی نے ملک کے جمہوری اداروں کو مظبوط اور مستحکم نہیں ہونے دیا ۔ جب بھی سیاسی حکومتوں کو موقع ملا انہوں نے ڈلیور نہیں کیا۔تمام سیاسی حکومتوں پر الزامات لگتے رہے ،ذوالفقار علی بھٹوپر دھاندلی کا الزام ،بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں پر کرپشن ،اختیارات کا ناجائز استعمال،اقرباء پروری ،میرٹ کی پامالی اور بیڈ گورننس جیسے الزامات لگے ۔انہی وجوہات کی وجہ سے فوجی آمروں نے سیاسی حکومتوں کو چلتا کیا اور اقتدار کی بھاگ ڈور خود سنبھال لی ۔ مان لیا کہ سیاسی قیادت نااہل ہے ،کرپٹ ہے ،چورہے،ملک دشمن ہے مگر محب وطن جرنیلوں اور فوجی آمروں نے قوم کے لئے کون سی دودھ کی نہریں بہادی ہیں ۔ پاکستان میں تیس سال سے زیادہ عرصہ فوجی حکومتیں اقتدار کے مزے لوٹتے رہی ہیں ۔ فوجی آمروں کے بار بار شب خون مارنے کی وجہ سے پاکستان میں ادارے مظبوط نہیں ہوسکے ،جمہوری روایات کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ واقفان حال تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے آج تک سیاسی قیادت کو اقتدار دل سے دیا ہی نہیں ۔ ملک کی خارجہ پالیسی اور اہم امور ہمیشہ جی ایچ کیو سے طے ہوتے ہیں ۔ ملک کے دفاع کی ذمہ دار اہم سیکورٹی ایجنسی سیاستدانوں کی جاسوسی کرتی ہے اور سیاستدانوں سے اپنے من مرضی کے فیصلے کرواتی ہے ۔یار لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اقتدار کس کو دینا ہے یہ فیصلہ انتخابات سے پہلے آبپارہ میں ہوجاتا ہے ۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بہت سے لوگوں سے جمہوری حکومت کے خاتمے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔شہر اقتدار میں کچھ مکین مختلف ماڈلز پر بحث کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ان کے بقول اب فوج براہ راست اقتدار میں نہیں آئے گی بلکہ ٹیکنوکریٹ ماڈل پر عمل ہوگا۔ کچھ لوگ سیاستدانوں پر مشتمل نیم جمہوری ماڈل پر بات کررہے ہیںیا پھر پہلے کی طرح مارشل لاء (خدانخواستہ ایسا کچھ ہو) ۔میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوکہ میاں نوازشریف نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے انہوں نے منشور میں کئیے گے وعدوں پر عمل نہیں کیا ،گڈ گورننس تو بہت دور کی بات کہیں گورننس بھی نظر نہیں آتی ۔غریب عوام کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر نہیں ہیں مگر حکمرانوں کی ترجیحات میٹرواور بڑے بڑے منصوبوں کے اشتہارات چھپوانا اور افتتاحی تقریبات کا فوٹوشوٹ کروانا پہلی ترجیح ہے ۔ پنجاب میں شہباز شریف کی گورننس کا عالم سانحہ ماڈل ٹاؤن ،قصور بچوں کے ساتھ زیادتی والے واقعات،شہروں میں سٹریٹ کرائمز،رانا ثناء اللہ پر لگنے والے قتل کے الزمات،ملزموں کی پشت پناہی جیسے واقعات میڈیا میں روز زیر بحث رہتے ہیں ۔ بڑے بڑے پراجیکٹس میں اربوں روپے کرپشن ،کک بیکس،کمیشن کی کہانیاں زبان زدعام ہیں ۔ سول حکومت کی گرفت معاملات پر بہت زیادہ کمزور ہورہی ہے جس کی وجہ لوگ میاں نوازشریف میں ان قائدانہ صلاحیتیوں کا نہ ہونا قراردے رہے ہیں جو اس وقت ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے کسی بھی قائد میں لازمی ہونی چاہیے۔ نوازشریف پر اپنے خاندان کو نوازنے اوراپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بزنس کو بلواسطہ عالمی سطع پر پھیلانے کا الزام بھی عائد ہے ۔ رہی سہی کسر میاں صاحب کے نالائق اور سیاسی فہم سے عاری وزرا ء پوری کردیتے ہیں جو ہر وقت ہر کسی کے ساتھ جنگ وجدل کا ماحول بنادیتے ہیں ۔ جناب وزیراعظم آپ صرف وزیراعظم ہی نہیں جمہوریت کے محافظ بھی ہیں سب سے بڑی ذمہ داری آپ پر اس وقت عائد ہوتی ہے کہ جمہوریت کو مظبوط بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔ پارلیمنٹ کو مظبوط بنائیں ،مثبت جمہوری روایات کو فروغ دینے کے لئے اپنے خاندان سے باہر نکلیں۔اپنی کارکردگی کا احتساب خود کریں ورنہ کوئی اور احتساب کرنے کے لئے چوری چھپے آس لگا کے بیٹھا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے میاں صاحب ہوش کے ناخن لیں !
فورا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں ۔ملک کو درپیش تمام اہم چیلنجز کو زیر بحث لائیں اور تمام فریقین کی مشاور ت سے پالیسیاں بنائیں اور مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے روڈمیپ بنائیں ۔ کوئی بھی جمہوری ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام نہ کریں ۔اداروں میں اختیارات کا توازن ہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے ہرادارے کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہئیے اور دوسرے اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیئے ۔وطن عزیز جس نازک دور سے گزر رہا ہے ملک کسی نئے ایڈونچر کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ لہذافوج اور دیگر سیکیورٹی کے تمام ادارے اپنا کام کریں اور سول اداروں کو اپنا کام کرنے دیں ۔ عسکری قیادت کو اگر کچھ تحفظات ہیں تو وہ مل بیٹھ کر حل کر لئے جائیں ۔ مگر جمہوریت کو چلنے دیا جائے کیونکہ جمہوریت ہی ملک کی ترقی اور فلاح کا واحد راستہ ہے ۔
پاکستان کے عوام یقیناسیاسی استحکام کو ترستے ہیں مگر ایسا استحکام جس میں عوام خود شریک ہو۔حکومت کو چاہئیے کہ فورا اختیارات مقامی سطع پر عوام کے منتخب مقامی نمائندوں کو دیں تاکہ وہ عوام کے مسائل مقامی طور پر حل کرسکیں ۔عوام الناس کا جمہوری اداروں پر اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے ۔عوام الناس کی اکثریت اپنے مسائل کا حل فوراچاہتی ہے مگر جمہوری طریقے سے ۔ ہمیں گڈ گورننس تو ضرور چاہیے
مگر فوجی گورننس کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ قوم ’’میرے عزیز ہموطنو!‘‘کی آوازاب نہیں سننا چاہتی


It's a good write up. (y)
ReplyDelete