تعلیم کا بھنور: ڈگری کا غلام یا شعور کا رہنما?
کالم: عتیق چوہدری
قوموں کا مستقبل کبھی محض نمبروں یا رسمی ڈگریوں سے طے نہیں ہوتا، بلکہ نظریات، تخلیقی صلاحیت اور عملی مہارت سے ہوتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام ہمارے لیے ایک واضح رہنما اصول فراہم کرتے ہیں۔فن لینڈ کا نظام، جسے دنیا میں بہترین مانا جاتا ہے، 16 سال کی عمر تک بچوں پر کوئی بڑا معیاری امتحان مسلط نہیں کرتا۔ یہاں زور ذاتی ترقی، کھیل اور اعلیٰ تربیت یافتہ اساتذہ پر ہوتا ہے۔ جاپان اپنے طلباء کو نظم و ضبط اور اخلاقیات کی تربیت دیتا ہے، جبکہ سنگاپور اپنی "Teach Less, Learn More" پالیسی کے تحت نصاب میں عملی اطلاق اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت (Problem-Solving) پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اسی طرح کینیڈا اپنے نظام میں لچک اور مساوات کو فروغ دیتا ہے تاکہ ہر بچے کو اس کی انفرادی ضرورت کے مطابق وسائل میسر ہوں۔ یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ بچے کی اصل قدر اس کے رٹے ہوئے مواد سے نہیں، بلکہ اس کی تخلیقی سوچ اور عملی صلاحیت سے ہے۔ ان عالمی معیاروں کے برعکس، ہمارا تعلیمی نظام ایک قومی المیہ بن چکا ہے جو ہمارے بچوں کو شعور کے رہنما کے بجائے ڈگری کا غلام بنا رہا ہے۔ حافظ آباد کی 17 سالہ طیبہ کا انٹر میں ناکامی پر تیزاب پی کر لقمہ اجل بن جانا، یا اپر دیر کی 15 سالہ انمول کا 1010 نمبر لینے کے باوجود خود کو ناکام سمجھ کر زندگی کا خاتمہ کر لینا، محض انفرادی سانحے نہیں بلکہ ہمارے نظامِ تعلیم کے تاریک پہلو کی المناک چیخیں ہیں۔ ہم نے بچوں کو محض نمبروں کی اندھی دوڑ میں شامل کر دیا ہے، جو ان کے مستقبل کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں شدید قسم کے ہیجان اور ڈپریشن کا باعث بن رہا ہے۔ امتحان صرف ہندسوں کا کھیل بن کر رہ گیا ہے، گویا ہم نے طالب علم کو انسان کے بجائے ہندسوں کا قیدی بنا دیا ہے۔تعلیم کا اصل مقصد شعور کی پختگی، کردار کی تعمیر اور بصیرت کی فراہمی ہے، مگر ہمارے ہاں پورا تعلیمی معیار صرف نمبر پر تکیہ کرتا ہے، حالانکہ قرآن حکیم میں بھی ایمان اور علم والوں کے درجات کو بلند کرنے کا ذکر ہے، جہاں علم اور کردار ہی درجہ کا تعین کرتے ہیں، نہ کہ نمبر۔تعلیمی دنیا کے صفِ اول کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں نمبروں کی قید سے آزادی حاصل کرنی ہو گی۔ سر کین روبنسن اپنی مشہور کتاب "دی ایلیمنٹ" میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر بچے میں موجود قدرتی صلاحیتوں اور تخلیقی صلاحیتوں کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ پرکنز کی کتاب "فیوچر وائز" کہتی ہے کہ ہمیں طلباء کو مستقبل کی مہارتیں جیسے تنقیدی سوچ (Critical Thinking) اور تعاون سکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ہاورڈ گارڈنر نے ثابت کیا کہ ذہانت صرف ایک قسم کی نہیں ہوتی بلکہ متعدد اقسام کی ہوتی ہے (Multiple Intelligences)۔ڈینئل گولمین کے مطابق جذباتی ذہانت (EQ) ہی اصل کامیابی کی ضامن ہے، نہ کہ صرف تعلیمی نمبر۔یہ تمام حوالہ جات ہمارے موجودہ نظام پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ ہمارا پرانا نصابِ تعلیم آج کی دنیا کی تقاضوں اور مستقبل کے چیلنجز سے یکسر غیر ہم آہنگ ہے۔ یہ فرسودہ نصاب رٹا سسٹم پر زور دیتا ہے اور بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا گلا گھونٹتا ہے۔
یونیسکو کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق، ہمارے 70 فیصد طلباء تنقیدی سوچ سے ناواقف ہیں، کیونکہ ان کی تربیت صرف یاد کرنے اور نقل کرنے پر ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں دو کروڑپچاس لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جو نہ صرف ایک نسل کے طور پر ضائع ہو رہے ہیں بلکہ قومی ترقی کی راہ میں سنگین رکاوٹ ہیں۔ہمارے تعلیمی نظام کی ایک بڑی خامی اکیڈمیا (تعلیمی اداروں) اور انڈسٹری (صنعتوں) کے درمیان مضبوط رابطے کا فقدان ہے۔ ہماری جامعات میں ہونے والی ریسرچ کا عملی میدان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اعلی تعلیمی اسنادصرف رسمی ڈگریوں کا حصول رہ گئی ہیں اور ان تحقیقی مقالوں کا عملی مسائل سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو شعور دیا جائے کہ اپنے بچوں کو ان کی صلاحیتوں و رجحان کے مطابق تعلیم دلائی جائے اور اپنے پیشے کے انتخاب کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ ایک بھیڑ چال سے نکل کر مارکیٹ میں جس چیز کی ضرورت ہے اس شعبہ میں مہارت حاصل کی جائے تاکہ روزگار کا مسئلہ بھی نہ بنے اور ملکی ترقی میں بھی حصہ ڈل جائے ۔ نوجوانوں کو انٹرپنیورشپ کی طرف مائل کیا جائے تاکہ نوجوان ذہنی طور پر نوکری تلاش کرنے کی بجائے نوکری دینے کی سوچ پر کام کریں ۔ حکومت کو تعلیمی اداروں کے ساتھ انڈسٹری کو لنک کرنے کے خصوصی اقدامات کرنے ہونگے تاکہ نوجوان تعلیمی سفر کے ساتھ عملی کام بھی سیکھیں اور روزگار بھی کما سکیں ۔ اب پوری دنیا میں آرٹیفیشل انٹیلجنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ہر شعبہ زندگی میں انقلاب لارہی ہے ہمیں بھی بروقت اپنے نظام کو آرٹیفیشل انٹیلجنس کے ساتھ منسلک کرناہوگا اور جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی نہیں ہے وہاں فورا تیز سپیڈانٹرنیٹ کی فراہمی کویقینی بنانا ہوگا تاکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم پیچھے نہ رہ جائیں ۔اساتذہ کی تربیت و پڑھانے کے جدید طریقے سکھانے کے لئے وزارت تعلیم کو ایک قومی تربیتی پروگرام شروع کرنا چاہئے جس کی بنیاد آئے آئی اور آئی ٹی کے بعد کی تعلیمی اصلاحات ہو۔ترقی یافتہ ممالک میں اس کے برعکس، صنعتیں یونیورسٹیوں کو فنڈ فراہم کرتی ہیں اور انہیں براہِ راست مارکیٹ کے حقیقی مسائل پر تحقیق کرنے کو کہتی ہیں تاکہ فارغ التحصیل طلباء صرف ڈگری ہولڈر نہیں، بلکہ عملی طور پر مسائل کا حل پیش کرنے کے قابل ہوں۔ ہمیں اپنے نصاب اور ریسرچ کو عملی شکل دینے کی فوری ضرورت ہے۔پاکستان میں تعلیمی اصلاحات لانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے امتحانی نظام کی بنیاد کو بدلنا ہو گا۔ہمیں نصاب کو رٹا سسٹم کے بجائے کریٹیکل تھنکنگ، ریسرچ، عملی ہنر (Skill-based learning)، شعور اور کردار کی طرف منتقل کرنا ہو گا۔ جامعات کو انڈسٹری سے جوڑ کر عملی تحقیق کو فروغ دینا ہو گا۔ امتحانات صرف تحریری پرچوں تک محدود نہ رکھے جائیں، بلکہ بچوں کی مجموعی کارکردگی، پروجیکٹس، عملی مہارت اور جذباتی ذہانت کو بھی جانچا جائے۔ سکولوں سے باہر کروڑوں بچوں کو واپس لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر قومی سطح پر ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ورنہ یہ نمبروں کی دوڑ ہماری نسلوں کو کچلتی رہے گی اور ہم ایسے ہی تعلیمی غلام پیدا کرتے رہیں گے جن کے پاس ڈگری تو ہو گی، مگر ویژن اور شعور کی دولت سے وہ محروم رہیں گے۔ ہمیں اپنے
بچوں کو ہندسوں کا قیدی نہیں، بلکہ مستقبل کا رہنما بنانا ہو گا۔
#educationsystem #Pakistan #pakistaneducationcrisis #Sdgs #literacychallenge #ExamSuccess #Atiqchaudhary

.jpg) 
 
 
Comments
Post a Comment