پاکستان کی سماجی ترقی کا بحران


ازقلم : عتیق چوہدری


حکومت کی جانب سے معاشی ترقی، جی ڈی پی میں بہتری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے کئی بارایسے  دعوے  کئے گئے جو ملک کے روشن مستقبل کی نوید سناتے  ہیں۔مگر ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم محض سرکاری بیانیوں پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس ترقی کی گہرائی اور جامعیت کا جائزہ لیں۔ اگر ترقی واقعی ہو رہی ہے تو ہمارے سماجی ترقی کے اہم اشاریے (Indicators) کچھ الگ ہی بیان کر  رہے ہیں کیوں  کہ عالمی سطح پر صحت، تعلیم اور صنفی مساوات کے انڈیکس میں ہماری پوزیشن مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔یہ تضاد واضح کرتا ہے کہ معاشی نمو کا فائدہ ملک کی اکثریت تک نہیں پہنچ رہا اور انسانی ترقی کے پیمانے پر ہم ابھی بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ان بلند و بالا دعوؤں کے برعکس حقیقی سماجی حقائق کو اعداد و شمار کی کسوٹی پر پرکھنا  بھی اہم ہے۔عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ "ریکلیمِنگ مومینٹم ٹوورڈز پراسپرٹی" نے ہمارے اس بیانیے کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے کہ معاشی نمو کم از کم متوسط طبقے کو استحکام دے رہی ہے۔ رپورٹ نہ صرف غربت میں اضافے کی تصدیق کرتی ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ ملک کا ترقیاتی ماڈل اب ناکام  ہو چکا ہے۔ ملک کی کل آبادی کا 42.7 فیصد پر مشتمل ابھرتا ہوا متوسط طبقہ مکمل معاشی تحفظ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہےاور محفوظ نکاسیٔ آب، صاف پانی، سستی توانائی جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے ۔ یہ حقائق اس وقت مزید سنگین ہو جاتے ہیں جب غربت کے اعداد و شمار ہمارے سامنے آتے  ہیں کیونکہ اس وقت  قومی سطح پر غربت 25.3 فیصد ہے جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہےجبکہ بین الاقوامی غربت لائن کے مطابق یہ شرح 44.7 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے غربت میں مزید 5.1 فیصد اضافہ کیا اور 1.3 کروڑ افراد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلا۔ غربت میں کمی کی شرح جو کبھی 3 فیصد سالانہ تھی وہ کم ہو کر صرف 1 فیصد رہ گئی  اور اب معاشی حالات کی خرابی کے باعث اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔روزگارفراہمی کا منظرنامہ بھی ملک میں معاشی لچک کے فقدان کی تصویر کشی کرتا ہے۔ 85 فیصد سے زیادہ روزگار غیر رسمی اور کم اجرت والی ملازمتوں پر مبنی ہے۔ سب سے بڑا المیہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کا ضیاع ہے 15 سے 24 سال کی عمر کے 37 فیصد نوجوان نہ تو ملازمت کر رہے ہیں اور نہ ہی تعلیم یا تربیت میں شامل ہیں۔ مزید برآں، خواتین کی محنت میں حصہ داری صرف 25.4 فیصد ہے جس کی تصدیق ورلڈ اکنامک فورم کی 2025 کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ بھی کرتی ہےجس میں پاکستان 148 ممالک میں 147 ویں نمبر پر ہے۔ یہ ہمارے معاشی اور سماجی ارتقاء کو درحقیقت آدھا کر چکا ہے۔ عالمی بینک نے رواں مالی سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد تک محدود رہنے کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ غربت کی شرح 44 فیصد رہنے کی توقع ہے۔عالمی سطح پر سماجی اور انسانی ترقی کو ماپنے کا متفقہ پیمانہ اقوام متحدہ کے 17 پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) ہیں مگر منظم اور ادارہ جاتی غفلت کی بدولت یہ عالمی اہداف ملک کی ترجیحات میں دم توڑ رہے ہیں۔ اب محض دعوے ہماری قوم کو مزید سراب میں نہیں رکھ سکتے،ہمیں تلخ حقائق کا سامنا کرنا ہوگا۔ غربت کا خاتمہ (SDG 1) یوں لگتا ہے جیسے کسی سراب کا پیچھا کیا جا رہا ہو، کیونکہ شرح غربت 39 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس سے جڑا دوسرا المیہ زیرو ہنگر (SDG 2) کی بُری صورتحال ہے۔ یونیسیف اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان میں 40  فیصدسے زیادہ بچے سٹنٹنگ کا شکار ہیں، جو دائمی غذائی قلت کا واضح اشارہ ہے۔  ایس ڈی جی 3 کے سنگین بحران کی طرف آتے ہیں  ،صحت پر 1.2 فیصد  خرچ کرنا محض معاشی نہیں بلکہ ایک اخلاقی گراوٹ ہے۔ یونیسیف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح عالمی سطح پر بلند ترین شرحوں میں شامل ہےجبکہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹس دوران زچگی خواتین  کی اموات کے بلند تناسب کی نشاندہی کرتی ہیں۔پنجاب میں صحت کے شعبہ میں ہر فرد کو 1200 افراد پر ایک ڈاکٹر اور سندھ میں 2100 افراد پر ایک ڈاکٹرہے۔  پاکستان میں کوالیفائیڈ پیرا میڈیکل اسٹاف، ڈاکٹر، نرسز کی کمی ہے اور ساتھ ہی اچھے اسپتالوں اور جدید صحت کے نظام کا مسئلہ درپیش ہے ۔ تعلیم کا میدان بھی کم سنگین نہیں جہاں کروڑوں بچے ابھی بھی سکول سے باہر ہیں،  پنجاب میں شرح خواندگی 67 فیصد اور سندھ میں 59 فیصد ہے ۔  پاکستان خطے میں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان بھارت، فلپائن، ترکی، سری لنکا، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان نے ایک سال میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.9 فیصد اور صحت پر جی ڈی پی کا 0.48 فیصد خرچ کیا۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو نیوٹریشن Nutrition اور غذائی قلت Food Securityکے شدید چیلنجزکا سامنا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں 22 فیصد افراد کو مناسب غذا کی دستیابی کے بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان خطِ غربت کے عالمی انڈیکس میں 192 ممالک میں سے 161ویں نمبر پر ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے غریب ممالک میں 52ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح پاکستان میں خواندگی کا تناسب 58 فیصد ہے مگر مردوں اور خواتین میں خواندگی کے حوالے سے بہت بڑا فرق ہے۔ڈیجیٹل انسانی ترقی کے انڈیکس میں پاکستان 193 ممالک میں 164 ویں نمبر پر ہے ۔ پینے کا صاف پانی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ہم بنیادی حقوق سے محروم ہیں  جہاں آدھی  سے زیادہ آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے  ۔جبکہ  پائیدار ترقی کا ہدف  دنیا کو 2030ء تک سب کے لیے صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی پائیدار دستیابی اور انتظام کو یقینی بنانے کا واضح مشن دیتا ہے۔ان  تمام اہداف کی ناکامی کی جڑ گڈ گورننس کا فقدان ہے۔ عالمی قانون کی حکمرانی کے انڈیکس (Rule of Law Index) میں بھی عدلیہ کی آزادی اور فیصلہ سازی میں مبینہ مداخلت کے واقعات نے اداروں پر عوام کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جب انصاف کا نظام غیر موثر ہو تو جوابدہی کا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ حقائق بتاتے ہیں کہ اداروں کی کمزوری ہماری سماجی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہ اعداد و شمار  محض حقائق اور رپورٹس نہیں ہیں یہ ایک قومی انتباہ ہے جو پکار پکار کر کہہ  رہا ہے کہ سیاسی آزادی پر سمجھوتہ، غربت میں اضافہ اور صحت و تعلیم پر دائمی غفلت ہمارے مستقبل کو فعال طور پر سبوتاژ کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ عدم کارکردگی سے زیادہ ایک ادارہ جاتی بے عملی کا نتیجہ ہے۔ اب ہمیں محض وعدوں کی تکرار کی نہیں بلکہ ایک ہنگامی ایمرجنسی پلان یا انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے عملی اقدامات کا ایکشن پلان چاہیے جو پالیسیوں کے جمود کو توڑ دے اور سماجی ترقی کو اولین ترجیح بنائے۔ اس کے لیے بجٹ میں انقلابی اصلاحات ناگزیر ہیں، جہاں حکومت کو صحت پر GDP کا 5فیصد اور تعلیم پر 4  فیصد مختص کرنا ہوگا، ساتھ ہی لوکل گورننس کا احیاء اور ایک سخت جوابدہی کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ اب یہ علامتی اشاروں کا نہیں بلکہ ٹھوس اعداد و شمار پر مبنی عمل کا وقت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ وسائل کو متحرک کریں اور متحد ہو کر اقوام متحدہ کا پائیدار ترقی کے ایجنڈا 2030 کو پاکستان میں  ایک حقیقت بنائیں تاکہ کوئی بھی پاکستانی  اقوام عالم سے پیچھے نہ رہ جائے!






















Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء