لاہور کی بہاروں پر سموگ کا حملہ


  کالم: عتیق چوہدری 

21اکتوبر2025 

تاریخ کے اوراق میں "بہاروں کا شہر" کہلانے والا لاہور جسے باغوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا ۔آج سموگ  جیسے  زہریلے دھویں میں گھرا ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) اور اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی مسلسل انتباہی رپورٹس کے باوجود، لاہور فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کے خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں سرفہرست ہے، سموگ کی صورتحال پنجاب کے کئے بڑے شہروں کو متاثر کررہی ہے۔ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق لاہور کا ائیرکوالٹی انڈیکس 332 پر پہنچ گیا اور  فیصل آباد میں ائیرکوالٹی انڈیکس 325 ہے۔اس کے علاوہ شیخوپورہ 311، ڈی جی خان 239، گوجرانوالہ 233 اور ملتان کا اے کیو آئی 224 ہے۔پیر کی صبح علی الصبح لاہور کا ائیر کوالٹی انڈیکس انتہائی خراب ہونے سے لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوا۔

یہ صورتحال نئی دہلی (AQI 220) اور بیجنگ (AQI 150) سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ یہ صرف ایک ماحولیاتی انتباہ نہیں بلکہ انسانی المیہ ہے جس کی قیمت آنے والی نسلوں کو اپنی صحت سے ادا کرنی پڑے گی۔عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹس مزید چونکا دینے والی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ذرات انسانی پھیپھڑوں اور خون کے خلیوں میں سرایت کر کے کینسر، فالج اور دل کے دوروں کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال ستر لاکھ سے زیادہ اموات فضائی آلودگی سے منسوب ہیں۔  ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ پاکستان کی درجہ بندی کے مطابق 0 سے 100 تک انڈیکس کو سبز اور مثبت جب کہ 101 سے 200 تک انڈیکس کو قدر آلودہ مگر قابل برداشت کی کیٹیگری میں رکھا گیا ہے۔

300 سے 500 کے درمیان انڈیکس آلودہ اور انتہائی آلودہ کی کیٹیگری میں آتے ہیں اور ایسے میں طویل مدت تک فضائی آلودگی کی صورت میں دل اور پھیپھڑوں کے مریضوں کو سانس لینے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کی درجہ بندی میں بتایا گیا ہے کہ ائیر کوالٹی انڈیکس 500 سے زیادہ ہونے کا مطلب فضا شدید آلودہ ہے اور اس کے اثرات صحت مند افراد پر بھی پڑسکتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف ہماری ناکامی کی داستان بیان کر رہے ہیں بلکہ عوام کی صحت کے ساتھ کھلی چھیڑ چھاڑ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسی ضمن میں، اقوام متحدہ نے بارہا ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی کے خلاف سخت اقدامات کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے "ماحولیاتی ایمرجنسی" کا اعلان کرتے ہوئے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور قابل تجدید توانائی کے استعمال کو بڑھانے کے لیے فوری اور جرات مندانہ فیصلے کریں۔ ان اداروں کی اپیلیں محض اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ سائنس کی بنیاد پر کیے گئے وہ حقائق ہیں جنہیں نظرانداز کرنا اجتماعی خودکشی سے کم نہیں۔لاہور میں سموگ کے متعدد عوامل  ہیں ۔ٹرانسپورٹ سیکٹر میں دوڑتی لاکھوں گاڑیاں جن کے فٹنس سرٹیفکیٹ محض کاغذی کارروائی ہیں، آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ صنعتی آلودگی کے ذمہ دار فیکٹریاں جدید فلٹرز سے محروم ہیں اور کھلے عام زہریلا دھواں خارج کر رہی ہیں۔ اینٹوں کے بھٹے زگ زیگ ٹیکنالوجی کے دعوؤں کے باوجود، غیر رجسٹرڈ بھٹے روایتی طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ مزید برآں، پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں زرعی باقیات کو جلانے کا غیر سائنسی عمل سموگ کو ہوا دینے کا کام کر رہا ہے۔ ان تمام عوامل کے خلاف ایک جامع اور نافذ العمل کنٹرول حکمت عملی کی ضرورت ہے، نہ کہ محض ہنگامی اعلانات کی۔حکومت پنجاب نے سموگ گنز اور بہت سے اقدامات کئیے ہیں مگر سموگ کم ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہی یہ بہت بڑا سوال ہے ۔ محکمہ تحفظ ماحولیات کی کارکردگی بھی ایک سوالیہ نشان ہے ؟ کاغذوں میں تو شاندار اقدامات تھے بہت سی ٹیمیں کام کررہی تھی مگر نتائج کیوں نہیں نکل رہے ؟ اتنے فنڈز خرچ ہونے کے باوجود کوئی حکمت عملی کامیاب کیوں نہیں ہورہی ؟ ہمیں دنئیا کے اہم ممالک سے بھی سبق سیکھنا چاہیئے ۔ خاص طور پر چین کا دارالحکومت بیجنگ جو کبھی لاہور کی طرح آلودگی کا شکار تھا، آج اس نے قابل رشک ترقی کی ہے۔ انہوں نے کوئلے کے استعمال پر سخت پابندی عائد کی، صنعتوں میں جدید فلٹرز لازمی قرار دیے، الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دیا اور عوامی نقل و حمل کا شاندار نظام قائم کیا۔ اسی طرح لندن نے بھی اپنے "سموگ" پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین اور بھاری جرمانوں کا نظام نافذ کیا، جسے "الٹرا لو ایمیشن زون" کہا جاتا ہے۔ یہ تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی عزم اور سخت نافذ العمل قوانین کے ذریعے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔حکومت پنجاب کے ہنگامی اجلاسوں، منٹس اور "سخت ایکشن" کے اعلانات کے باوجود زمینی حقائق تشویشناک ہیں: کیا واٹر اسپرنکر مشینوں سے فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ شجرکاری کے نام پر لگائے گئے پودوں کی حقیقی تعداد اور ان کی بقا کے اعداد و شمار کہاں ہیں؟ کیا یہ سارے اقدامات صرف میڈیا شو کے لیے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی سنجیدہ نفاذ کی حکمت عملی بھی موجود ہے؟ گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کے باوجود دھواں اگلتی گاڑیوں پر کیوں کارروائی نہیں ہو رہی؟ کیا صنعتی علاقوں میں Air Quality Sensors نصب کیے گئے ہیں اور ان کا ڈیٹا عوام کے لیے قابل رسائی ہے؟ کسانوں کو فصلوں کی باقیات کے متبادل استعمال کے لیے کون سا عملی تعاون دیا گیا ہے، صرف دھمکیوں سے مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جامع منصوبہ بندی کرے جس میں ٹیکنالوجی کا استعمال، سخت مانیٹرنگ اور عوام کی شمولیت شامل ہو۔پنجاب بلخصوص لاہور کو بچانے کے لیے فوری اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے شہر بھر میں Air Quality Monitors نصب کر کے ڈیٹا کو شفاف بنایا جائے۔ دوسرا، عوامی نقل و حمل کے نظام میں انقلابی تبدیلی لائی جائے اور سستی، تیز رفتار اور آلودگی سے پاک ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے۔ تیسرا، تمام صنعتوں کے لیے جدید فلٹرز لازمی قرار دیے جائیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانوں کے ساتھ بند کر دیا جائے۔ چوتھا، اینٹوں کے بھٹوں کو جدید زگ زیگ ٹیکنالوجی پر فوری اور مکمل طور پر منتقل کیا جائے۔ پانچواں، کسانوں کو فصلوں کی باقیات کو جلانے کے بجائے زمین میں مکس کرنے یا دیگر صنعتی استعمال کے لیے متبادل طریقے اور سبسڈی فراہم کرائے جائیں۔ چھٹا، بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم صرف فوٹو سیشن تک محدود نہ ہو بلکہ پودوں کی حفاظت اور بقا کو یقینی بنایا جائے۔ لاہور کو بچانے کا وقت آ چکا ہے۔ یہ صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے، درخت لگانے ہوں گے اور عوامی نقل و حمل استعمال کرنا ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ ڈرامہ بازی اور میڈیا شو سے آگے بڑھ کر حقیقی اقدامات کرے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ لاہور کی فضائی آلودگی محکمہ ماحولیات کا مسئلہ نہیں، بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے جس کے فوری حل کی ضرورت ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء