ڈیجیٹل بھوک، جھوٹی تسکین
کالم: عتیق چوہدری
قومیں جب اخلاقی پستی کا شکار ہوتی ہیں تو ان کی سب سے پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ حقیقت سے منہ موڑ کر دکھاوے کی دنیا میں پناہ لینے لگتی ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل ایک ایسے نفسیاتی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے جسے ہم "سوشل میڈیا کا دکھاوا" کہتے ہیں۔ یہ محض تصویروں اور ویڈیوز کا کھیل نہیں بلکہ جمہوری طور پر تقسیم کیے گئے اضطراب (Democratically Distributed Anxiety) کا ایک ایسا نظام ہے جس کی بنیاد موازنہ، حسد اور ایک جعلی خودی کی تشکیل پر رکھی گئی ہے۔امریکی ماہرِ نفسیات لیون فیسٹنگر (Leon Festinger) نے 1954ء میں جو نظریہ پیش کیا تھا وہ آج کے سوشل میڈیا دور کی پیش گوئی لگتا ہے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ انسان اپنی صلاحیتوں اور حیثیت کا اندازہ ہمیشہ دوسروں سے موازنہ کر کے لگاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس سماجی موازنے (Social Comparison) کو ایک نئی اور خطرناک سطح پر پہنچا دیا ہے۔لوگ سوشل میڈیا پر ہر وقت اپنا موازنہ ایسے افراد سے کرتے ہیں جو ان سے بظاہر زیادہ کامیاب، امیر، پرکشش یا خوش دکھائی دیتے ہیں۔ فیسٹنگر اسے "اوپری سماجی موازنہ" (Upward Social Comparison) کہتے ہیں۔ یہ موازنہ صارفین کو مسلسل اپنی زندگی سے ناخوش اور غیر مطمئن کرتا ہے۔ اس شدید عدم اطمینان کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ دکھاوا کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ وہ بھی دوسروں کی نظر میں "کامیاب" نظر آئیں۔ وہ اپنی معمولی کامیابیوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا شیطانی چکر ہے جس میں ہر کوئی جعلی خوبصورتی اور جھوٹی عیش کی نمائش کر رہا ہے اور انفلونسرز دوسروں سے زیادہ لگژری اشیاء اور تجربات دکھا کر اپنے فالوورز کو اسی مسلسل دوڑ میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ماہرِ عمرانیات اِروِنگ گف مین (Erving Goffman) نے اپنی کتاب The Presentation of Self in Everyday Life میں معاشرتی زندگی کو ایک تھیٹر سے تشبیہ دی تھی۔ ان کے مطابق ہم سب اپنی زندگی ایک اسٹیج پر گزارتے ہیں،جہاں ہم دوسروں کے سامنے اپنی ایک مخصوص تصویر پیش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا اسی "گف مینی تھیٹر" کو ایک عالمی تماشا بنا دیتا ہے۔انسان فطرتاً ایک سماجی مخلوق ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں قبولیت اور اہمیت کا احساس چاہیے، جسے ہم "سماجی تصدیق" (Social Validation) کی بھوک کہتے ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا پر اپنی اصل زندگی نہیں بلکہ اپنی ایک "مثالی یا آئیڈیلائزڈ" (Idealized) تصویر پیش کرتے ہیں۔ وہ وہ چیزیں دکھاتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں سوچیں۔ ایک پرتعیش چھٹی، ایک خوشگوار فیملی، یا برانڈڈ اشیاء کی نمائش—یہ سب ایک ایسے تصورِ ذات کی تعمیر کے لیے ہیں جو معاشرے میں زیادہ قابلِ احترام اور قابلِ رشک ہو۔ جب ان کے اس مثالی تصور کو لائک کیا جاتا ہے یا سراہا جاتا ہے، تو اس سے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی طور پر مقبول اور کامیاب ہیں۔ یہ احساس ان کی خود اعتمادی (Self-esteem) کو بڑھاتا ہے۔ لیکن یہ رجحان اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے جب لوگ اپنی حقیقی پہچان سے دور ہو کر ایک جعلی خودی کی تشکیل کر لیتے ہیں اور جب ان کا دکھاوا ناکام ہوتا ہے تو وہ شدید اضطراب اور نفسیاتی گراوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔بہت سے معاملات میں یہ دکھاوا ایک قسم کے نفسیاتی بچاؤ کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ یہ حقیقت سے فرار کا ایک راستہ ہے۔ وہ لوگ جو اندر سے تنہائی، بے سکونی یا کسی قسم کے عدم تحفظ (Insecurity) کا شکار ہوتے ہیں وہ بیرونی توجہ کے ذریعے اس اندرونی خالی پن کو بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات ڈاکٹر شامیتا الٹر (Shamita Altar) کے مطابق سوشل میڈیا نے ایک "خوش رہو" کا غیر اعلانیہ دباؤ بنا دیا ہے کہ ہر کوئی ہر وقت خوش اور کامیاب نظر آئے۔ دکھاوا اسی دباؤ کا ایک فرضی جواب ہے، چاہے اندرونی طور پر وہ کتنے ہی ناخوش کیوں نہ ہوں۔انفلونسرز کے لیے دکھاوا صرف نفسیاتی نہیں بلکہ ایک طاقتور کاروباری مجبوری بھی ہے۔ ماہرِ اقتصادیات شوشانا زوبوف (Shoshana Zuboff) نے اپنی کتاب The Age of Surveillance Capitalism میں وضاحت کی ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں آپ کی توجہ کو "سرویلنس کیپیٹلزم" کے تحت برانڈز کو بیچتی ہیں۔ انفلونسرز زیادہ سے زیادہ توجہ اور "اثر و رسوخ" (Influence) حاصل کرنے کے لیے پرتعیش زندگی، مہنگی اشیاء اور غیر معمولی تجربات کی نمائش کرتے ہیں۔ برانڈز ان ہی انفلونسرز کے ساتھ شراکت کرتے ہیں جن کا دکھاوا سب سے زیادہ پرکشش اور کامیاب نظر آتا ہے جس سے انہیں مالی اور شہرت کی صورت میں واپسی ملتی ہے۔ لہٰذا دکھاوا ان کے لیے ایک مجبوری بن جاتا ہے، چاہے اس کا کتنا ہی بڑا حصہ جعلی کیوں نہ ہو۔سوشل میڈیا پر دکھاوا بظاہر ایک بے ضرر عمل لگتا ہے لیکن نفسیاتی اور سماجی طور پر اس کے گہرے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ یہ خود اعتمادی کو کھوکھلا کر دیتا ہےکیونکہ جب انسان اپنی قدر کا انحصار دوسروں کی تصدیق پر کرتا ہے تو وہ اندرونی اطمینان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حسد، اضطراب اور تنہائی جیسے جذبات جنم لیتے ہیں۔دکھاوے کا متبادل ایک ایسی ذہنیت ہے جو دوسروں سے موازنہ کرنے کی بجائے ذاتی نمو اور حقیقی تعلقات پر زور دے۔ انسان کو اپنی قدر کا تعین دوسروں کی آرا کی بجائے اپنی صلاحیتوں، اخلاقیات اور اندرونی خوبیوں کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں برابری اور انصاف ہو وہاں دکھاوے کی ضرورت کم ہو جاتی ہے کیونکہ افراد کو اپنی شناخت اور قدر کے لیے بیرونی تصدیق پر انحصار نہیں کرنا پڑتا۔دکھاوے کی بجائے ایسا کام کیا جائے جو ذاتی اور معاشرتی دونوں سطح پر بامعنی ہو۔ جب انسان اپنے کام میں مقصد تلاش کر لیتا ہے تو اس کی عزت اس کے کردار، محنت اور شراکت سے بنتی ہے نہ کہ اس کے مادی سامان سے۔دکھاوا اس اندرونی بے چینی کی علامت ہے جو انسان کو حقیقی خوشی سے دور رکھتی ہے۔ ہمیں اس کے برعکس غور و فکر، قدرتی ماحول میں وقت گزارنے اور روحانی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والے سکون پر توجہ دینی ہو گی جو انسان کو ایک مضبوط اور خود مختار شخصیت بناتا ہے۔اپنے تعلقات کو سچائی اور ایمانداری پر مبنی بنائیں۔ ایسے دوست بنائیں جو آپ کو اس لیے پسند کریں کہ آپ کون ہیں، نہ کہ اس لیے کہ آپ کے پاس کیا ہے۔ یہ ایک مضبوط سماجی ڈھانچہ بناتا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کو جج کرنے کے بجائے سپورٹ کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کو دکھاوے کے بجائے علم، ہنر اور تعمیری کاموں کے لیے استعمال کریں۔ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، دوسروں سے سیکھنے اور مثبت پیغامات پھیلانے پر توجہ دی جائے۔ مثال کے طور پر وہ انفلونسرز جو اپنی تعلیم یا فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ معاشرے کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔یہ اصلاحات صرف انفرادی سطح پر نہیں، بلکہ سماجی اور ثقافتی تبدیلی کے ذریعے ممکن ہیں۔ ہمیں ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں ہر انسان کو اپنی حیثیت کا احساس دلانے کے لیے مادی اشیاء کا سہارا نہ لینا پڑے، بلکہ اس کی قدر اس کے کردار، علم اور اخلاق سے ہو۔ جب تک ہم اپنے داخلی سکون اور حقیقی خودی کی قدر نہیں کریں گے، ہم جھوٹ کے آبشار میں بہتے رہیں گے

Comments
Post a Comment