عوام کا اعتماد اور معاشی اشاریوں کا تضاد
کالم : عتیق چوہدری
ملک کی معاشی صورتحال پر آئی ایم ایف کے حالیہ سٹاف لیول معاہدے کو حکومتی ایوانوں میں ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے دوسرے جائزے کے بعد 1.2 ارب ڈالر کی اگلی قسط کی منظوری ایک وقتی ریلیف ضرور ہے۔ یہ قدم زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے اور عالمی مالیاتی اداروں کے اعتماد کو بحال کرنے کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق، پاکستان کی معیشت اس وقت "درست سمت میں گامزن" ہے۔ 14 سال بعد پہلی بار مالیاتی نظم و ضبط میں بہتری دیکھی گئی، بجٹ خسارہ طے شدہ ہدف سے کم رہا اور بڑے میکرو اکنامک اشاریے بظاہر بہتری کی نوید دیتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو 3.6 فیصد، بیروزگاری کی شرح 7.5 فیصد، اور مہنگائی 6 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے، جو کہ کئی حوالوں سے گزشتہ برس سے بہتر ہے۔ مگر یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے جس کا جواب کسی اقتصادی رپورٹ میں نہیں ملتا۔ وہ سوال یہ ہےکہ کیا یہ بہتری عام آدمی کی زندگی میں کسی آسانی کا سبب بنی؟۔۔اگر معیشت واقعی درست سمت میں جا رہی ہے تو گلی محلوں کے لوگ کیوں اب بھی پستے جا رہے ہیں؟۔۔بدقسمتی سے، عوام کے تجربے اور حکومتی دعوؤں کے درمیان ایک گہری خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ ایوانوں میں معاشی استحکام کے دعوے گونج رہے ہیں مگر عوام کی زندگی مہنگائی، بیروزگاری اور غیر یقینی کے اندھیروں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ معیشت کے استحکام کا حقیقی پیمانہ جی ڈی پی یا زرمبادلہ کے ذخائر نہیں، بلکہ عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری ہے اور اسی پیمانے پر موجودہ صورتحال افسوسناک حد تک مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔مہنگائی کا عفریت عام آدمی کی کمر توڑ چکا ہے۔ آٹے، چینی، گھی، سبزی، دال ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے درمیانے اور نچلے طبقے کے گھروں سے سکون اور مسکراہٹ چھین لی ہے۔ اگرچہ آئی ایم ایف کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی 6 فیصد کے آس پاس رہے گی لیکن عوام کی قوتِ خرید اور افراطِ زر کا حقیقی اثر اس سے کہیں زیادہ ہے۔عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک دونوں کی رپورٹس خبردار کر رہی ہیں کہ ملک میں غربت میں خطرناک اضافہ ہو رہا ہے۔ لاکھوں خاندان خطِ غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی ترقیاتی اشاریےمیں پاکستان کا درجہ مسلسل نیچے جا رہا ہے۔ تعلیم، صحت اور معیارِ زندگی کے میدان میں ہمارا زوال ایک اجتماعی لمحۂ فکریہ بن چکا ہے۔ سرکاری وسائل کا بڑا حصہ صرف قرضوں پر سود کی مد میں خرچ ہو رہا ہے۔حکومت کے اپنے اعداد و شمار تصدیق کرتے ہیں — 17573 ارب روپے کے بجٹ میں سے 8206 ارب روپے صرف قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ یعنی آدھے سے زیادہ وسائل قرضوں کے بوجھ تلے دفن ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ جب اتنا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو جائے تو تعلیم، صحت اور انسانی ترقی کے شعبوں کے لیے کیا باقی بچتا ہے؟رواں سال کے تباہ کن سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ زراعت جو ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے شدید نقصان سے دوچار ہوئی۔ فصلیں تباہ ہوئیں، لاکھوں ایکڑ زمین برباد ہو گئی اور ہزاروں کسانوں کی محنت پانی میں بہہ گئی۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کا عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ ہزاروں خاندان آج بھی عارضی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جبکہ حکومت کے وعدے محض اعلانات کی حد تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔کسان جو کبھی ملک کی معیشت کی جان تھے، آج اپنی زمین، اپنی فصل اور اپنے مال مویشی کھو چکے ہیں۔ ان کے چولہے ٹھنڈے ہیں، اور امید کی شمع بجھتی جا رہی ہے۔ پنجاب حکومت نے بحالی کے لیے سروے ضرور شروع کیا ہے مگر سیاسی اختلافات نے انسانی دکھ پر بھی سیاست کا سایہ ڈال دیا ہے۔ پی پی پی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مدد اور ن لیگ وزیراعلی ریلف کارڈ سے متاثرین کی مدد کرنا چاہتی ہے ۔ عام آدمی کی بس اتنی سی خواہش ہے کہ حکومت اس مشکل کی گھڑی میں ا ن کی دادرسی کرے تاکہ وہ زندگی کا پہیہ دوعارہ سے چلا سکیں ۔درحقیقت، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ کوئی حکومت بھی طویل المدتی منصوبہ بندی پر یقین نہیں رکھتی۔ جو آتا ہے وہ اپنی مدت پوری کرنے کے لیے عارضی اقدامات کرتا ہے اور پھر وہی مسائل اگلی حکومت کے لیے مزید گہرے زخم بن کر سامنے آتے ہیں۔آئی ایم ایف، ورلڈبنک اور دیگر ادارے بار بار سٹرکچرل ریفارمز پر زور دیتے ہیں لیکن ہم نے اپنی معیشت کو اب تک خود انحصاری کی بنیاد پر استوار نہیں کیا۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں مگر گندم، چینی، دال اور کھانے کا تیل تک درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ ہر بحران میں مافیاز اپنے حصے کی کمائی نکال لیتے ہیں اور عوام کے حصے میں صرف مہنگائی اور مایوسی آتی ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم وقتی سہارا لینے کے بجائے پائیدار معاشی خود انحصاری کی طرف بڑھیں تاکہ یہ بحران مستقل حل ہو۔ پائیدار استحکام کا راستہ دراصل خود انحصاری ہے۔ ہم ایسی معاشی پالیسی اپنائیں جو قرضوں سے نہیں اپنی پیداوار، محنت اور پالیسی کے تسلسل سے پروان چڑھے۔ آئی ایم ایف کا اعتماد یقیناً اہم ہےلیکن زیادہ ضروری یہ ہے کہ حکومت معیشت کے ذریعے عوام کا اعتماد بحال کرے۔ زرعی شعبہ موسمیاتی تبدیلیوں اور کم سرمایہ کاری کی وجہ سے بحران کا شکار ہےجبکہ صنعتی شعبہ توانائی کی بلند قیمتوں اور غیر یقینی پالیسیوں کے دباؤ میں ہے۔ لہٰذا، پائیدار استحکام کے لیے زرعی اصلاحات، یعنی موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے اور مقامی پیداوار میں اضافے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنااشد ضروری ہیں۔ اسی طرح صنعتی فروغ کے لیے توانائی کے سستے متبادل ذرائع، جدید ٹیکنالوجی کے فروغ اور مقامی خام مال پر مبنی برآمدات پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وقتی مالیاتی ریلیف کو ہدف بنانے کے بجائے، سماجی تحفظ اور انسانی ترقی کے اشاریوں کو بہتر بنانے کے لیے بجٹ مختص کرے۔ جب تک معاشی پالیسیوں کا مرکز کاغذات پر موجود میکرو اشاریوں سے ہٹ کر عام آدمی کی زندگی کی مشکلات کے حل پر نہیں آئے گا تب تک حکومتی دعوے اور عوامی حقیقت کے درمیان یہ تضاد برقرار رہے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کے اعتماد سے زیادہ عوام کے اعتماد کی فکر کرے کیونکہ عوام کا اعتماد ہی حقیقی اور پائیدار معاشی استحکام کی بنیاد ہے۔
#AtiqChaudhary #atiqCh #Atiqchaudharycolumn #Pakistan #economy #IMF

Comments
Post a Comment