آبادی کا بم: پاکستان کے محدود وسائل پر بڑھتا ہوا دباؤ


روزنامہ پاکستان میں آج کا کالم 

https://dailypakistan.com.pk/E-Paper/lahore/2025-10-24/page-3

پاکستان اس وقت آبادی میں بے ہنگم اضافے اور محدود وسائل کے ایک ایسے خطرناک تضاد کا شکار ہے جو ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی کل آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جس نے اسے آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بنا دیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک امر سالانہ 2.55  فیصدکی شرح اضافہ ہے، جو 2050ء تک آبادی کو 38 کروڑ سے زائد تک پہنچا سکتی ہے اگر موجودہ رجحان برقرار رہا۔ یہ تیز رفتار اضافہ، جس کی بنیادی وجہ فی عورت 3.6 بچے کی بلند شرح   پیدائش ہے، ملکی وسائل پر زبردست دباؤ ڈال رہا ہے اور غربت کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ پائیدار ترقی کے لئے کوئی لانگ ٹرم منصوبہ نہیں بنایا گیا جس میں وسائل و آبادی کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھ کر منصوبہ بندی کی گئی ہو ۔ مختلف ادوار میں مختلف منصوبہ بنتے رہے ہیں مگر ڈیٹا کو بنیاد بنا کر 50 سالہ منصوبہ نہیں بنایا گیا جس میں یہ سو چاگیا ہو کہ ہماری آبادی اتنی ہوگی اور وسائل  یہ موجود ہیں ان وسائل کو کیسے موثر استعمال کرکے ملکی ترقی  و سماجی و معاشی گروتھ یقینی بنا سکتے ہیں  ۔ ورلڈ بینک کی 2024ء کی رپورٹ واضح طور پر نشاندہی کرتی ہے کہ حالیہ معاشی بحران اور آبادی میں تیزی کی وجہ سے غربت کی شرح بڑھ کر 25.3  فیصدہو گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ صرف ایک سال کے اندر 1 کروڑ 30 لاکھ مزید پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ورلڈ اکنامک فورم کے اس تجزیے کی بھی تائید کرتے ہیں جو آبادی میں عدم توازن کو ترقی پذیر ممالک میں معاشی ناہمواری اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم کا بڑا سبب قرار دیتا ہے۔ عالمی فورم کا تجزیہ ہے کہ اس بے قابو آبادی کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا تقریباً ناممکن ہے؛ اگر موجودہ شرح برقرار رہی تو 2050ء تک ساڑھے 11 کروڑ نئی ملازمتوں کی ضرورت ہوگی، جو پاکستان کی موجودہ معاشی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر ہم لوگوں کو روزگار کی فراہمی کا جائزہ لیں تو لاکھوں نوجوان اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باجود بے روزگار ہیں ان کے پاس روزگار نہیں ۔ اگر ہے بھی تو وہ اپنی قابلیت و صلاحیت سے بہت کم معاوضہ لے رہے ہیں ۔

وزارت منصوبہ بندی  کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ہر سال آبادی میں 50 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جو کہ ملکی معیشت پر بوجھ ہے اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔پلاننگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10 برس کے دوران پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 1.5 فیصد سے بڑھ کر 7 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ بھارت میں بیروزگاری 4.5 فیصد اور بنگلہ دیش میں 5 فیصد سے زائد ہے، بھارت میں ہر سال بیروزگاری کی شرح میں کمی جبکہ پاکستان میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جبکہ سابق وزیر خزانہ اور معروف ماہرِ معاشیات ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کے انکشاف کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 22 فیصد ہو چکی ہے  2 کروڑ نوجوان بیروزگار،مردشرح  30 فیصد، خواتین میں 18 فیصد ہے ۔

 

 

آبادی کا یہ بوجھ صرف معیشت تک محدود نہیں بلکہ بنیادی انسانی وسائل اور قدرتی وسائل پر بھی شدید دباؤ ڈال رہا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADB) کی رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو2040ء تک ملک پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے ممالک میں 23 ویں نمبر پر آ سکتا ہے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے شہروں کے لیے رہائشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زرعی اراضی کو بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے،ملک میں اربن پلاننگ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے دیہاتوں سے بڑی تعداد میں لوگ شہروں کی طرف رزق کی تلاش و تعلیم کے لوگ بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں جس کی وجہ سے شہروں میں انفراسٹرکچر کا مسئلہ بھی اہم ہے ۔ دوردراز علاقوں میں سہولیات کا فقدان ، تعلیم وصحت کی معیاری سہولیات کا نہ ہونا ، روزگار کے مواقع نہ ہونا ، انٹیرنیٹ ٹیکنالوجی و دیگر جدید سہولیات کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ پاکستان، ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود، اپنی غذائی ضروریات کی تکمیل کے لیے بیرون ملک پر تشویشناک حد تک انحصار کرتا جا رہا ہے۔ حالیہ رپورٹس کے اعداد و شمار اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ ملک کی کل تجارتی درآمدات میں خوراک کی درآمدات کا حصہ 2024 میں تقریباً 14.1% تک پہنچ گیا ہے، جو کسی بھی زرعی معیشت کے لیے ایک غیر معمولی اور بلند شرح ہے۔ مالی سال 202324 کے صرف نو ماہ (جولائی تا مارچ) میں 6.1 ارب ڈالر سے زائد کی غذائی اشیاء درآمد کرنا ہماری فوڈ سیکیورٹی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہر سال 9 ارب ڈالر سے زائد کی خوراک درآمد کرنے کا یہ بھاری مالی بوجھ نہ صرف ملک کے تجارتی خسارے میں اضافے کا سبب بن رہا ہے، بلکہ یہ ملک میں مہنگائی اور غذائی عدم تحفظ کو بھی بڑھاتا ہے، خاص طور پر چونکہ یہ درآمدات بنیادی طور پر خوردنی تیل، دالوں اور یہاں تک کہ گندم جیسی اہم اشیاء پر مشتمل ہوتی ہیں۔

یونیسیف (UNICEF) اور یونیسکو (UNESCO) کی رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے بچوں کے لیے بنیادی سہولیات کی فراہمی میں شدید رکاوٹیں ہیں۔ یونیسکو کی تحقیق کے مطابق، ملک میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ 53 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور خواندگی کی شرح 61فیصد اب بھی بہت کم ہے۔ سب سے زیادہ پنجاب میں 96 لاکھ بچے سکولوں سے باہر، سندھ میں 78 لاکھ، کے پی کے میں تقریباً 49 لاکھ اور بلوچستان میں 50 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں، سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں بھی پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔صورتحال اتنی ابتر ہے کہ 3 کروڑ 83 لاکھ میں سے تقریباً 77 لاکھ گھر کچے ہیں۔ یونیسیف کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ آبادی کے دباؤ کے باعث بچوں کی صحت اور غذائی قلت کے مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر شہروں کی کچی آبادیوں اور دور دراز علاقوں میں صفائی اور پینے کے صاف پانی تک رسائی میں کمی آ رہی ہے۔صاف پانی کی فراہمی ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے جس کی وجہ سے ملک میں یرقان ، معدے و جگر کی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ یہ تمام رپورٹس اور اعداد و شمار ایک قومی حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور محدود وسائل کے درمیان عدم توازن اب ایک نازک مرحلے پر پہنچ چکا ہے۔ یہ مسئلہ صرف سماجی بہبود کا نہیں بلکہ قومی سلامتی اور مستقبل کی ترقی کا ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے ہمیں سستی اور ناکافی حکومتی پالیسیوں کو ترک کر کے، خاندانی منصوبہ بندی کے قومی لائحہ عمل پر ہنگامی بنیادوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا، اور اپنی نوجوان آبادی کو ہنر مند اور تعلیم یافتہ بنا کر اسے معاشی بوجھ کے بجائے اثاثہ میں تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر آج اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والی نسلوں کے لیے پاکستان ایک غربت زدہ اور وسائل سے محروم ملک بن جائے گا۔

 

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء