قرض کا شکنجہ، پیداواری معیشت اور برآمدی چیلنج


 

کالم : عتیق چوہدری 

 

پاکستان کی معیشت آج جس کثیر الجہتی بحران کی زد میں ہے وہ صرف قرضوں اور سیاسی عدم استحکام کا شاخسانہ نہیں بلکہ پیداواری صلاحیت سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ معاشی اعداد و شمار چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ ملک کو عارضی مرہم پٹی کی بجائے دیر پااسٹرکچرل  ریفارمزکی ضرورت ہے۔ برآمدی گراوٹ، قرضوں کے تاریخی بوجھ اور کمزور ترقی کی شرح کے سائے میں ہیں ، اب وقت  کا تقاضا ہے کہ پالیسی کی سمت کو ریمیٹنسز اور قرضوں سے ہٹا کر صنعتی اور زرعی پیداوار پر مرکوز کیا جائے۔رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران ملک کا تجارتی خسارہ 9.4 ارب ڈالر کی تشویشناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ جب برآمدات کا حجم خطرناک رفتار سے کم ہو رہا ہے تو  یہ بھاری خسارہ ملکی معاشی استحکام پر سوالیہ نشان ہے ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پہلی سہ ماہی میں 30 صنعتی شعبوں کی برآمدات میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔حکومتی دستاویزات کے مطابق دستکاری مصنوعات کی برآمدات میں 94 فیصد، جیولری میں 98 فیصد، غذائی اجناس میں 31 فیصد اور سوتی کپڑے میں 14 فیصد کی کمی ہوئی۔ برآمدات میں یہ وسیع پیمانے پر کمی  حکومت کے 35.28 ارب ڈالر کے سالانہ برآمدات کے ہدف کو شدید خطرے میں ڈالتی ہے۔ اس تنزلی کی بنیادی وجوہات میں پیداواری لاگت میں اضافہ، توانائی کے غیر مستحکم نرخ اور ویلیو ایڈیشن پر ناکافی توجہ شامل ہیں۔تجارتی بحران ایک ایسے وقت میں شدت اختیار کر رہا ہے جب قرضوں کا بوجھ آسمان کو چھو رہا ہے۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پرقرضوں کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں   جس کے بعد ملک پر قرضے اور واجبات 94 ہزار 197 ارب روپے کی بُلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں ۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان  کے جون 2025 تک ملک پر قرضوں اور واجبات کے ڈیٹا  کے مطابق قرضے اور واجبات جی ڈی پی کے 82.1فیصد کے برابر ہوگئے، گزشتہ مالی سال 25-2024 کے دوران قرضوں اور واجبات میں 8 ہزار 740 ارب روپے کااضافہ ریکارڈ کیا گیا

جون2025 تک ملک پر مقامی قرضہ 54 ہزار 471 ارب روپے جبکہ غیر ملکی قرضہ اور واجبات 34 ہزار 906 ارب روپے رہے جبکہ اسی دوران غیر ملکی واجبات 4 ہزار 459 ارب روپے کی سطح پر رہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق  کل بیرونی قرضے اور واجبات کی مجموعی تعداد 133 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے ۔ یہ تاریخی سطح ملک کے محصولات کا ایک بڑا حصہ نگل رہی ہے اور پائیدار ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

آئی ایم ایف نے اکتوبر 2025 کی رپورٹ میں پاکستان کی جی ڈی پی ترقی کی شرح سال 2024 کے لیے 2.5 فیصد اور 2025 کے لیے 2.6 فیصد متوقع رکھی ہےجو کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سست ہے۔  یہ حقائق واضح طور پر بتاتے ہیں کہ ہمیں قرضوں پر انحصار کم کر کے پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔معیشت کی بحالی کا سفر صنعت اور زراعت کی بہتری سے شروع ہوتا ہے۔ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ رواں مالی سال کے آغاز پر بڑی صنعتوں (LSM) کی پیداوار میں جولائی 2025 میں 8.99 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا لیکن ٹیکسٹائل سیکٹرجو ہماری مجموعی برآمدات کا تقریباً 60 فیصد ہےمسلسل زوال پذیر ہے۔ مالی سال 2022 میں 19 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات مالی سال 2024 میں سکڑ کر 15.97 ارب ڈالر رہ گئی ہیں ۔برآمدی صنعتوں کو ترجیحی بنیادوں پر سستی اور مستقل توانائی کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ پیداواری لاگت عالمی مارکیٹ کے مطابق ہو سکے۔ خام مال کی برآمد کے بجائے ویلیو ایڈیشن کے فروغ پر بھرپور توجہ دی جائے اور صنعتوں کو جدید مشینری اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) جیسی ٹیکنالوجی اپنانے کے لیے رعایتی قرضے فراہم کیے جائیں۔ برآمد کنندگان کے ایکسپورٹ ریفنڈز کی فوری ادائیگی یقینی بنائی جائے، جیسا کہ مالی سال 2023-24 میں ایف بی آر نے 469 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے تھے۔ پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق زرعی شعبہ ملک کی 37 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا ہے اور جی ڈی پی میں 24 فیصد کا حصہ دار ہے۔ تاہم اقتصادی سروے کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق زرعی شعبے کی ترقی کی شرح مالی سال 2024-25 میں محض 0.56 فیصد رہنے کی توقع ہےجبکہ گزشتہ سال یہ 6.40 فیصد تھی۔  کپاس میں تقریباً 19 فیصد کی گراوٹ، اس سست روی کی بنیادی وجہ ہے۔ حکومت کو آبپاشی کے نظام میں اصلاحات، بہتر بیجوں کی فراہمی اور ڈیجیٹل زراعت کے فروغ میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ زرعی ترقی میں ایک فیصد اضافہ بھی ملک کی جی ڈی پی میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے، لہٰذا بڑی فصلوں کے لیے پالیسی کا استحکام یقینی بنایا جائے۔پائیدار معاشی خود انحصاری کے لیے قرضوں اور امداد پر انحصار کم کرنا ہوگا۔پاکستان کا سب سے بڑا ساختیاتی مسئلہ کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب ہے، جہاں حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان کا ٹیکس ایکسپینڈیچر جی ڈی پی کے صرف 2.1 فیصد کے برابر ہےجبکہ عالمی اوسط 4.0 فیصد ہے۔  نادرا اور دیگر اداروں کے ڈیٹا کو ایف بی آر سے مکمل طور پر منسلک کیا جائے تاکہ بھاری اخراجات کرنے والے نان فائلرز کی خودکار طریقے سے نشاندہی ہو سکے۔ ایف بی آر کا 145 ڈسٹرکٹ ٹیکس آفسز قائم کرنے کا فیصلہ، جو نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر توجہ دے گا، ایک خوش آئند قدم ہے، جسے تیزی سے مکمل کرنا چاہیے۔ سیکشن 114بی جیسے قوانین کو سختی سے نافذ کیا جائے تاکہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والوں کے یوٹیلیٹی کنکشنز اور موبائل سمز کو منقطع کیا جا سکے اور ٹیکس کی ادائیگی کو ایک قومی ذمہ داری کے طور پر نافذ کیا جا سکے۔وزارت آئی ٹی کے مطابق پاکستان دنیا کی چوتھی بڑی فری لانسر مارکیٹ سمجھا جاتا ہے، جہاں 25 لاکھ سے زائد افراد فری لانسنگ کر رہے ہیں۔ پاکستانی فری لانسرز سالانہ تقریباً 40 سے 50 کروڑ ڈالر تک زرمبادلہ کما رہے ہیں جسے حکومتی معاونت سے ایک ارب ڈالر سے تجاوز کروایا جا سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر انٹرنیٹ کی بار بار بندش ختم کرے تاکہ آئی ٹی انڈسٹری کے کروڑوں روپے کے نقصان کو روکا جا سکے اور فری لانسرز کے لیے زرمبادلہ لانے کے آسان بینکاری چینلز قائم کرے۔ معاشی ٹیم کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ پالیسیوں میں تسلسل اور سیاسی استحکام ہی پائیدار معاشی مستقبل کی بنیاد ہیں۔ ملک کو محض قرضوں اور ترسیلات زر کے سہارے پر نہیں چھوڑا جا سکتا  بلکہ اسے برآمدات پر مبنی پیداواری معیشت میں بدلنا ہوگا۔ ایک طرف جہاں یوٹیلٹی بلوں میں مسلسل اضافے سے عام آدمی کی مشکلات روز بروز بڑھ رہی ہیں اور حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف میسر نہیں، وہیں آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو من و عن تسلیم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کو اس تلخ حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ جب تک مؤثر اقدامات کے ذریعے آئی ایم ایف جیسے ساہوکار اداروں سے مستقل چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاتا، تب تک نہ مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی صنعت، زراعت اور ڈیجیٹل سیکٹر میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے کر قرضوں کے شکنجے سے نکل کر ایک مضبوط اور خود انحصار پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔سب سے اہم جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا ملک میں معاشی استحکام نہیں آسکتا ۔

#AtiqChaudhary #Economy #Pakistan #IMF #statebankpakistan #atiqCh

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء