شدت پسندی کا متبادل بیانیہ ضروری

عتیق چوہدری

پاکستانی معاشرہ آج ایک گہرے تہذیبی، فکری اور اخلاقی بحران سے دوچار ہے۔ شدت پسندی   اوردہشت گردی  کے ساتھ ساتھ عدم برداشت، فرقہ وارانہ تعصب اور سماجی ہم آہنگی کا فقدان ایک قومی چیلنج بن چکا ہے۔ ایک صحت مند سماج کی بنیادی شرط "We need to agree to disagree" کا اصول ہےلیکن ہمارا معاشرہ مذہبی، لسانی اور معاشی تعصبات میں بری طرح لتھڑا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں جون ایلیا کا شعر "آؤ اختلاف رائے پر اتفاق کرلیں" ایک اجتماعی خواہش بن چکا ہے۔گزشتہ ہفتے منہاج یونیورسٹی میں بین المذاہب ہم آہنگی پر ایک نہایت اہم اور معنویت سے بھرپور کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، جس کا مرکزی موضوع شدت پسندی کے خاتمے اور رواداری کے فروغ پر  مبنی  تھا۔یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ تعلیمی ادارے اس نوعیت کی علمی و فکری سرگرمیوں کا اہتمام کر رہے ہیں، کیونکہ شدت پسندی محض عسکری مسئلہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں فکری، نظریاتی اور تعلیمی  نظام میں پیوست ہیں۔ جب تک اس رجحان کے مقابلے میں ایک  ٹھوس، متبادل اور مثبت  بیانیہ  تشکیل نہیں دیا جاتا تب تک معاشرے میں "جیو اور جینے دو" جیسی انسان دوست سوچ پروان نہیں چڑھ سکتی۔۔اسلام دراصل امن، محبت اور اعتدال  کادین ہے، مگر افسوس کہ چند ناعاقبت اندیش عناصر نے مذہب کو اپنے سیاسی  اور جماعتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا کر اسے شدت پسندی کے ساتھ جوڑنے کی ناکام کوشش کی ہے۔اس کانفرنس کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ اس میں 25 ممالک کے نامور  سکالرز، پروفیسرز اور مختلف مذاہب کے نمائندے ، جو باہمی احترام کے ماحول میں ایک دوسرے کے مؤقف کو سن، سمجھ اور سراہ رہے تھے۔ایسی علمی نشستیں نہ صرف فکری مکالمے کو فروغ دیتی ہیں بلکہ پرامن بقائے باہمی اور بین المذاہب رواداری کے اُس پیغام کو بھی تازگی بخشتی ہیں جو انسانیت کے اتحاد کی اصل بنیاد ہے۔

منہاج یونیورسٹی کے ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے فکرانگیز مقالے میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کی تشکیل میں مسلمانوں کے ساتھ  تمام اقلیتی برادریوں نے بھی کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ آج اگر ہم واقعی پاکستان کو ایک اسلامی،  جمہوری وفلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں تمام طبقات، مذاہب ، مسالک اور معاشرتی گروہوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔انہوں نے نہایت مؤثر انداز میں کہا کہ بین المذاہب رواداری کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی نظام اور نصاب میں اصلاحات ضروری ہیں، کیونکہ اصل مسئلہ بیانیے کا ہے۔ جب تک انتہا پسندی کے خلاف متبادل بیانیہ نہیں آئے گا، پالیسیوں پر عمل درآمد مشکل ہوگا۔دہشت گردی انتہا پسندی سے شروع ہوتی ہے، لہذا ہمیں انتہا پسندی کی جڑ کو کاٹنا ہوگا۔ افسوس ابھی تک اس سوچ کو ختم کرنے کی طرف کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ ہمیں فرقہ واریت اور تکفیری سوچ کو ختم کر کے معاشرے کو امن، تحمل، بردباری اور توسط و اعتدال (Moderation) کا معاشرہ بنانا ہوگا۔ دہشت گردی کے غلبے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی امن و سلامتی اور عدم تشدد پر مبنی تعلیمات کو اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں بنایا۔ڈاکٹر قادری  نے اپنے تحقیقی مقالے میں بہت اہم سوالات اٹھائے جن پر بات ہونا بہت ضروری ہے ۔جس میں اہم پوائینٹ یہ ہے کہ "یہ کیسا نظامِ تعلیم ہے جس میں انسانیت ہی نہیں سکھائی جارہی ۔۔ اخلاق، محبت، الفت، برداشت، امن اور تحمل کا درس نہیں دیا جا رہا ۔۔ اہم بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی پرامن تعلیمات کو صرف مدارس ہی نہیں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصابات میں بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ جدید تعلیمی اداروں سے بھی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے افراد نہ ابھریں۔ریاستی سطع پر دہشت گردی اور شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے مختلف اقدامات کئے گئے ہیں جس میں اے پی ایس پشاور واقعہ کے بعد اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے  2014 میں نیشنل ایکشن پلان (NAP) بنایا گیامگر اس کے کئی اہم نکات خصوصاً متبادل بیانیہ اور تعلیمی اصلاحات پر عمل درآمد سست رہا ہے۔ چونکہ دہشت گردی کی جڑیں انتہاپسندی اور شدت پسندی سے جڑی ہوئی ہیں جب تک ان  کی نظریاتی بیخ کنی نہیں ہوتی ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا اس لئے ان کی نظریاتی بنیادوں کو ختم کرنے کے لئے غیر متزلزل عزم اور متبادل بیانیہ کی ضرورت ہے جس میں کوئی اگر مگر نہ ہو اور نہ ہی کوئی ابہام ہو ۔ دسمبر 2024 میں وفاقی کابینہ نے پُرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق قومی پالیسی (NPVE) کی منظوری دی جو فوجی کارروائیوں سے ہٹ کر ایک نظریاتی جنگی حکمتِ عملی پربھی  زور دیتی ہے۔یہ پالیسی پانچ بنیادی ستونوں (5-R Approach) پر کھڑی ہے ۔ پہلا نقطہ: نصاب کی اصلاح اور اساتذہ کی شمولیت سے تعلیم کو امن سازی میں تبدیل کرنا ۔ دوسرا Reach Out  ،میڈیا اور سوشل میڈیا پر قومی بیانیہ کی تشہیر کرنا۔تیسرا Reduce ،کمی لانا نوجوانوں اور خواتین کو امن کی سرگرمیوں میں شامل کرنا۔چوتھا Reinforce  فنون، ثقافت اور سائنسی جدت کے ذریعے رواداری کو فروغ دینا۔ پانچواں Reintegrate دوبارہ انضمام: سابق جنگجوؤں کی بحالی اور مفاہمت کے پروگرام۔کاغذوں کی حد تک یہ پالیسی ایک بہترین نظریاتی فریم ورک ہے، جس کا مقصد رواداری، قبولیت اور شمولیت کی ثقافت کو فروغ دینا ہے۔ تاہم اس پر عمل درآمد کی رفتار سست ہے۔ 11 ستمبر 2025 کو حکومت نے نیشنل پیغامِ امن کمیٹی (NPAC) بنانے کا اعلان کیا ہے  جو پیغامِ پاکستان کے نظریاتی تسلسل کو عملی اقدامات میں بدلنے کا ہدف رکھتی ہے۔شدت پسندی اور عدم برداشت کا فقدان صرف مذہبی نہیں بلکہ معاشی ناانصافی، ذہنی افلاس اور سماجی محرومیوں سے بھی پھوٹتا ہے۔ معاشرتی تعصبات کی جڑیں سیاست اور معیشت میں پیوست ہیں۔ ہر شخص اپنے نظریات کو حق سمجھتا ہے اور دوسرے کے نظریات کو باطل جیسا کہ جلیل حیدر لاشاری نے کہا: "جانے کب کون کسے ماردے کافر کہہ کے، شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتاہے"۔بقائے باہمی اور کثیرالمذہبی فلاحی ریاست کی مثالیں ہمیں میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ سے ملتی ہیں ۔  اسلام نے ہمیں "امت وسط" بنایا جو اعتدال پر قائم ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فرقہ واریت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ایک بھیانک مسئلہ ہےجس پر قتیل شفائی کا شعر صادق آتا ہے: "ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے، اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں"۔

ہمارے نظامِ تعلیم میں تربیت اور منطقی سوچ (Rational Thinking) کا فقدان ہے۔ ہمیں فلسفہ، ادب اور فنون لطیفہ کی طرف مائل کر کے طالب علموں میں منطقی مزاج پیدا کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی، ہمیں سائیکالوجیکل فریم ورک کا جائزہ لے کر نصاب میں برداشت اور تحمل جیسے موضوعات شامل کرنے ہوں گے اور تعلیمی اداروں میں مکالمہ کا کلچر پروان چڑھانا ہوگا۔

دینی مدارس، جامعات اور اساتذہ کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے تاکہ طلبہ کو یہ مفہوم سمجھایا جا سکے کہ رواداری کا مطلب ان لوگوں کو بھی برداشت کرنا ہے جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں۔ ۔ضروری ہے کہ ہم فرقہ واریت، موروثی سیاست اور رجعت پسندی کا خاتمہ کریں اور عدل و انصاف کا نظام قائم کریں۔ معاشی انصاف، محرومیوں کا ازالہ اور نوجوانوں کے لیے روزگار کی فراہمی ضروری ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے کر، نفرت کے جذبات کی حوصلہ شکنی کر کے اور عقلی رویوں کو فروغ دے کر ہی سماجی ہم آہنگی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔یہ ایک قومی ذمہ داری ہے کہ ہم تعلیمی اداروں میں منہاج یونیورسٹی کی طرح کی کانفرنسوں کو لازمی قرار دیں اور ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیں جو ہمیں فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی زنجیروں سے آزاد کر سکے۔بقول بشیر بدر: "سات صندوقوں میں بھر کر دفن کردو نفرتیں"

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء