بلدیاتی انتخابات: غیر جماعتی کیوں؟

 

کالم : عتیق چوہدری 

      مقامی حکومتوں کا نظام کسی بھی فعال جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے؛ یہ وہ نرسری ہے جہاں سے نچلی سطح کی قیادت پروان چڑھتی ہے اور ملکی سیاسی نظام کا حصہ بنتی ہے۔ بدقسمتی سےپاکستان میں خاص طور پر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ مسلسل التوا، سیاسی مفادات اور قانونی پیچیدگیوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ حالیہ پیش رفت، یعنی پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کے تحت بلدیاتی انتخابات کو غیر جماعتی بنیادوں پر کرانے کا فیصلہ، مقامی جمہوریت کی روح اور مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ آخر یہ فیصلہ کیوں؟اس فیصلے کی سب سے بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کی وہ خودغرضانہ سوچ ہے جو مجموعی قومی مفاد پر اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں یونین کونسل (UC) کی سطح تک ایک مضبوط، فعال اور جمہوری تنظیمی ڈھانچہ قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اگر ان کے پاس ملک گیر سطح پر قیادت کو پروان چڑھانے کا کوئی واضح میکانزم ہوتا، تو وہ مقامی حکومتوں کے انتخابات سے منہ نہ موڑتیں۔سیاسی جماعتوں کے اندر "انٹرا پارٹی الیکشن" محض ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ عمل درحقیقت 'انتخاب' نہیں، بلکہ 'سلیکشن' ہوتا ہے۔ عہدے اور ذمہ داریاں ان افراد کے حصے میں آتی ہیں جو پارٹی قیادت کے منظورِ نظر ہوں یا خوشامد میں مہارت رکھتے ہوں۔ مخلص اور قربانیاں دینے والے کارکن صرف نعرے لگانے کے لیے رہ جاتے ہیں، جبکہ پروٹوکول اور مفادات پرستی کا کھیل جاری رہتا ہے۔ غیر جماعتی انتخابات کی ترجیح میں کہیں نہ کہیں حکمران جماعت کا یہ خوف جھلکتا ہے کہ وہ اپنا 'نشان' لے کر عوام میں جانے سے گریزاں ہے۔ ان کے لیے آسان راستہ یہی ہے کہ وہ مقامی سطح پر عوامی مقبولیت جانچنے کے پیمانے سے بچیں اور کمزور سیاسی ڈھانچے کے باوجود غیر جماعتی امیدواروں پر کنٹرول حاصل کر لیں۔نئے ایکٹ کے تحت ہر یونین کونسل سے 9 کونسلر براہ راست منتخب ہوں گے، لیکن بغیر کسی سیاسی نشان کے۔ لیکن اس نظام کا سب سے مہلک پہلو یہ ہے کہ وہ جیتنے والے امیدواروں کو تیس دن کے اندر کسی بھی جماعت میں شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ شق مقامی سطح پر ہارس ٹریڈنگ، وفاداریوں کی خرید و فروخت، اور جوڑ توڑ کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دے گی۔ منتخب نمائندے، جو عوامی اعتماد سے آئے ہوں گے، اپنے علاقے کی ترقی یا عوامی خدمت کے بجائے، سیاسی جماعتوں کو اپنی وفاداری فروخت کرنے کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے۔ یہ نہ صرف شفافیت کو ختم کرے گا بلکہ مقامی سیاسی عمل کو پیسے اور دباؤ کا غلام بنا دے گا۔نئے نظام کا ایک اور تباہ کن پہلو ضلعی حکومت کا خاتمہ ہے۔ ضلع ناظم یا ضلعی میئر کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔ لاہور جیسے میٹروپولیٹن شہر میں اب میئر لاہور نہیں ہوگا، جبکہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ اب بھی ضلع پر مبنی ہے (جیسے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ضلعی انتظامی سربراہ ہیں)۔ ضلعی حکومت کا خاتمہ نظام میں اختیارات کے ٹکراؤ اور کشمکش کو جنم دے گا۔منتخب ضلعی سربراہ کی عدم موجودگی میں، بیوروکریسی (ڈپٹی کمشنر) کسی مقامی منتخب نمائندے کو جوابدہ نہیں ہوگی۔ یہ صورتحال ان کی گرفت کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرے گی اور مقامی مسائل کے حل میں رکاوٹ بنے گی۔مقامی حکومتیں حقیقی معنوں میں اپنے علاقوں کے لیے خود فیصلے نہیں کر پائیں گی، بلکہ مالیاتی اور انتظامی اختیارات کے لیے صوبائی حکومت (وزیراعلیٰ) کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوں گی۔ اس سے اختیارات کی منتقلی صرف کاغذوں کی حد تک محدود رہے گی۔پنجاب میں بہت ساری اتھارٹییز واسا ، پی ایچ اے ، ایل ڈی اے ، راون اربن اتھارٹی ، پیرا فورس ، صاف پانی اتھارٹی اور پنجاب ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی بنا کر اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں جو مقامی حکومتوں کے اختیارات کو محدود کرنے کے مترادف ہے ۔ 

عوام کی یہ پرزور خواہش تھی کہ میونسپل کارپوریشن کا چیئرمین/میئر اور تحصیل کونسل کا چیئرمین بھی براہ راست منتخب ہو۔ لیکن نئے ایکٹ نے اس کے برعکس، بنیادی سطح یعنی یونین کونسل کے چیئرمین کے براہ راست انتخاب کا اختیار بھی چھین لیا ہے۔ اب یونین کونسل کا چیئرمین اور وائس چیئرمین براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بجائے، براہ راست منتخب ہونے والے 9 جنرل کونسلرز اور 4 خصوصی کونسلرز (خاتون، یوتھ، لیبر، اقلیتی) کے 13 رکنی ایوان سے بالواسطہ طور پر منتخب ہوگا۔ بالواسطہ انتخاب کا یہ طریقہ جوڑ توڑ، سیاسی دباؤ اور میرٹ کے متاثر ہونے کا سبب بنے گا، کیونکہ چیئرمین کا انتخاب عوامی مقبولیت کے بجائے 13 کونسلرز کی مرضی پر منحصر ہو گا۔یونین کونسل میں وارڈ سسٹم ختم کر دیا گیا ہے اور پوری یونین کونسل کو ایک ہی حلقہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک ووٹر 9 کونسلرز کو ووٹ دے گا، جس سے عوامی نمائندگی کی یکسوئی متاثر ہو سکتی ہے اور مخصوص علاقوں کے مسائل کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 140A واضح طور پر ہر صوبے کو مقامی حکومت کا نظام قائم کرنے اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری اور اختیار مقامی نمائندوں کو منتقل کرنے کا پابند کرتا ہے۔ پنجاب کا حالیہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1973 کے ائین کے آرٹیکل 140اے آرٹیکل 32 اور آرٹیکل 7 سمیت میثاق جمہوریت 2006 کےبھی منافی ہے ۔ اس ایکٹ کا مقصد مضبوط خود مختار مقامی حکومتوں کے مقابلے اختیارات کو صوبائی مرکزیت تک محدود  کرنا ہے۔اسی طرح غیر جماعتیں انتخابات بھی جمہوریت کی نفی ہے۔مگر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخ قابلِ رشک نہیں۔ 2015 میں آخری انتخابات ہوئے، جنوری 2019 میں مدت پوری ہوئی، مگر اس کے بعد سے مختلف حکومتوں نے مختلف حیلے بہانوں سے اس آئینی تقاضے کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ گزشتہ تین برسوں میں چھ مرتبہ قانون تبدیل ہوا، دو مرتبہ حلقہ بندیاں ہوئیں، مگر انتخابات نہیں ہو سکے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے حال ہی میں حلقہ بندی شیڈول کی واپسی سے ایک بار پھر یہ معاملہ التوا کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ صورتحال اس امر کا ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن (جو کہ ان جماعتوں کا 'دست و بازو' سمجھا جاتا ہے) اس آئینی ذمہ داری سے فرار کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کے تحت بلدیاتی انتخابات کا غیر جماعتی بنیادوں پر انعقاد، ضلعی حکومت کا خاتمہ، اور یونین کونسل چیئرمین کے بالواسطہ انتخاب جیسے اقدامات مقامی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے مزید کمزور اور بیوروکریسی کے کنٹرول میں دینے کی ایک سوچی سمجھی کوشش لگتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے نشان پر انتخابات ہوتے تو انہیں نچلی سطح پر منظم ہونے، اپنا انتظامی ڈھانچہ مضبوط کرنے اور حقیقی عوامی مقبولیت جانچنے کا موقع ملتا۔ تاہم، حکمران جماعت کے سہمے ہوئے رویے اور عدم مقبولیت کے خوف نے اس نظام کی روح کو مسخ کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام کو آئین کے آرٹیکل 140اے کے مطابق، سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات کے ساتھ منتخب مقامی نمائندوں کے حوالے کیا جائے، تاکہ حقیقی معنوں میں عوامی مسائل ان کی دہلیز پر حل ہو سکیں اور نچلی سطح پر متبادل سیاسی قیادت پروان چڑھ سکے۔ یہ نظام بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومت کے مرہون منت رہنے کے بجائے خود مختاری دے کر ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اور مڈل کلاس کا "راستہ روکنا"

افواہ سازی اور فیک نیوز: آزادیٔ اظہار پرلٹکتی تلوار؟

زبانوں کا ارتقاء